پاکستان میں بعض طاقتور مذہبی حلقوں کا خیال ہے کہ اقلیتوں کو پہلے ہی ملک میں مکمل آزادی حاصل ہے اس لیے کسی نئے بل کی ضرورت نہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل سینٹ عربی زبان کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھانے کا بل متفقہ طور پر منظور کر چکی ہے۔
اقلیتوں کے حقوق سے متعلق بل پیر کوسینٹ کی مذہبی امور سے متعلق کمیٹی میں پیش کیا گیا۔ لیکن اسے رد کرتے ہوئے کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ اقلیتوں کو پہلے ہی ملک میں آزادی ہے اس لیے کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جو تجاویز پیش کی گئی ہیں وہ مروجہ قوانین میں پہلے ہی موجود ہیں۔
تاہم مجوزہ قانون کے محرک اور نواز لیگ کے رہنما سینیٹر جاوید عباسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”جبری تبدیلی مذہب، اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ، ان کے ورثے کا تحفظ اور ان کی جائیدادوں کے تحفظ سمیت کئی ایسے امور تھے، جو اس بل میں تھے لیکن کمیٹی نے اس کو مسترد کردیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی کے اندر ایک مخصوص ذہن کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں اقلیتوں کے کوئی مسائل نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کے لیے اب وہ یہ بل سینیٹ کے سامنے رکھیں گے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے صورت حال ابتر ہے اور کئی بین الاقوامی تنظیمیں بارہا اس کا تذکرہ اپنی رپورٹوں میں کرتی رہی ہیں۔سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے رکن سینیٹر طاہر بزنجو کا کہنا تھا کہ کرک کا حالیہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اقلیتوں کے لیے صورت حال تسلی بخش نہیں۔
ایوان بالا کی ہندو رکن سینیٹر کرشنا کماری نے کمیٹی کی طرف سے بل کو مسترد کئے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”جبری تبدیلی مذہب سمیت کئی اہم امور اس بل میں تھے۔ ہمارے مندروں پر حملے ہوتے ہیں اور کچھ عناصر اس طرح پاکستان کو بدنام کرتے ہیں۔ ہم ان تمام چیزوں کی روک تھام کے لیے بل لارہے تھے، جس کو کمیٹی نے مسترد کر دیا، جس پر ہمیں سخت افسوس ہے‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کے خلاف سرگرم شر پسند عناصر کے خلاف قانون سازی ہونی چاہیے۔
پاکستان ہندو فورم کے سربراہ ڈاکٹر جے پال چھابڑیا کہتے ہیں، ”میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ جہاں اس نے اتنے سارے مثبت اقدامات اٹھائے ہیں جیسے کہ کرتارپور کا راستہ کھولا اور پرانے مندروں کو ہندو کمیونٹی کے حوالے کیا، ویسے ہی اب اس بل کو منظور کرانے میں اپنا کردار ادا کرے‘‘۔
dw.com/urdu