لیاقت علی
اکیس فروری کوقومی زبانوں کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کی مناسبت سے لاہور میں پنجابی زبان کے حق میں بھی چئیرنگ کراس پر ایک مظاہرہ/ جلسہ/ اکٹھ منظم کیا گیا تھا۔ اس اکٹھ میں مختلف الخیال خواتین وحضرات جو پنجابی زبان کو پنجاب کی سرکاری اور تعلیمی زبان بنانے کے حامی ہیں نے شرکت کی۔ اس اکٹھ ہی میں پتہ چلا کہ کچھ لوگوں نے اپنا علیحدہ مظاہرہ پریس کلب کے سامنے کیا۔
کیا پنجاب میں پنجابی زبان کبھی سرکاری زبان بن سکتی ہے؟ میرے خیال میں نہیں کیونکہ مسلمان پنجابیوں نے پاکستان بنایا ہی پنجابی زبان،ثقافت اور پنجابیت کی نفی کرکے تھا۔ موجودہ پاکستان میں پنجاب ہی وہ صوبہ ہے جو تقسیم ہوا تھا اگر پنجاب مسلم لیگ کےدو قومی نظریے کا ساتھ نہ دیتا تو پاکستان بن ہی نہیں سکتا تھا یہ پنجاب ہی تھا جس نے پاکستان کے لئے اپنی زبان،ثقافت اور صدیوں پر محیط تاریخ کو فراموش اور تیاگ کر جناح کا اسلامی پاکستان بنایا تھا۔
پاکستان کے موجودہ ریاستی ڈھانچے جس میں پنجاب کو دوسرے صوبوں پر غلبہ حاصل ہے، میں رہتے ہوئے پنجاب کس طرح دوقومی نظریے سے انحراف کرسکتا ہے کیونکہ دو قومی نظریہ، اردو زبان اور اسلامائزیشن پنجاب کے وہ ہتھیار ہیں جو پاکستان کی ریاست پر اس کے غلبے کو قائم اور مضبوط رکھنے میں کام آتے ہیں۔ آج پنجاب اپنی زبان،ثقافت اور تاریخ کو اپنا لے تو دو قومی نظریہ، اردو زبان اور مذہب کے نام پر سیاست یہ تینوں مظاہر جو پاکستان میں آمریت کے نشان ہیں غیر متعلق ہوجائیں گے اورپاکستان ایک جمہوری وفاق بن جائے گا اور جمہوری وفاق پنجاب کے مفادات سے متصادم ہے۔
سات7 جولائی 1972 کو سندھ اسمبلی نے سندھی لینگویج بل منظور کیا۔ یہ بل منظور ہونے کی دیر تھی کہ کراچی اور حیدرآباد کے اردو بولنے والوں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ رئیس امروہی نے اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے جیسے زہریلے نعروں سے اردو زبان کے تحفظ اور سندھی کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کیا۔مہاجروں کے ردعمل سے گھبرا کر بھٹو نے گورنر سندھ رسول بخش تالپور کواس بل پر دستخط نہ کر نے کی ہدایات دے دیں۔
وفاقی کابینہ نے سندھی زبان کے بل منظور ہونے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال پر غور اورتجاویز مرتب کرنے کے لئے چار ا رکان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی۔ اس کمیٹی میں حیات محمد خان شیرپاو وفاقی وزیر قدرتی وسائل، ایندھن اور بجلی، ملک معراج خالد گورنر پنجاب،معراج محمد خان وزیر مملکت برائے عوامی امور اور عبدالحفیظ پیرزادہ وزیر قانون اور پارلیمانی امور شامل تھے۔ اس کمیٹی نے مہاجر اور سندھی نمائندوں کو مذاکرات کے لئے مدعو کیا تاکہ مسئلے کا قابل عمل حل تلاش کیا جاسکے۔
مہاجر وفد میں پروفیسر اشتیاق حسین قریشی، حسین امام، اے۔بی حلیم ۔ پروفیسر غفور احمد اور جی۔اے مدنی شامل تھے جب کہ سندھی وفد میں معروف سندھی شاعر اور دانشور شیخ ایاز،قاضی فیض محمد،علی بخش تالپور،محمد خان سومرو کے علاوہ سندھ کابینہ کے دو وزیر قائم علی شاہ وزیر قانون اور در محمد استو وزیر تعلیم شامل تھے۔دونوں وفود کی وفاقی کابینہ کی کمیٹی سے پہلی ملاقات دس جولائی کو ہوئی جس میں فریقین نے اپے مطالبات پیش کئے۔
پھر13اور 14 جولائی کو ہونے والی میٹنگز میں کابینہ کمیٹی کے رکن وفاقی وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ سفارش کی کہ صوبائی گورنر سندھ اسمبلی سے منظور ہونے والی لینگوئج بل پردستخط کردیں لیکن کمیٹی میں شامل ملک معراج خالد گورنر پنجاب نے پیرزادہ کی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے چتاونی دی کہ اگراردو کے مقابلے میں سندھی کو سندھ کی سرکاری زبان قراردیا گیا تو پنجاب میں اس کا شدید ردعمل ہوگا کیونکہ ان کے نزدیک پنجاب کےعوام بھی اردو کے بہت حمایتی اور طرف دار ہیں۔ملک معراج خالد کی اس چتاونی کا ثبوت لاہور میں طالب علموں کا وہ جلوس تھا جو 15 جولائی کو لاہور اردو کی حمایت میں نکلا تھا۔
ملک معراج خالد کے اختلاف اور لاہور میں اردو کی حمایت میں طالب علموں کا جلوس بھٹو کے لئے بہت غیر متوقع تھا۔ پنجاب بھٹو کا پاور بیس تھا وہ کسی قیمت پر پنجاب میں سیاسی ہلچل نہیں چاہتے تھے۔چنانچہ وفاقی کابینہ کی اس کمیٹی نے اردو کو قومی زبان اقراردے دیا اور سندھی کو سندھ کی سرکارزبان قرار دے کر اس مسئلے کو نبٹانے کی کوشش کی تھی۔
اردو کے حمایتی مہاجروں سے زیادہ پنجابیوں میں پائے جاتے ہیں کیونکہ اردو پنجابی اشرافیہ کے لئے چھوٹے صوبوں پر اقتدار قائم رکھنے والے بہت سے ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار ہے۔
بحوالہ دی فیڈرل کیبنٹ آف پاکستان از نعمانہ کرن امتیاز