لیاقت علی
پاکستان کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی 92 فی صد سرحدیں( 6774کلو میٹر) تین ممالک ۔بھارت( 43 فی صد) افغانستان ( 36 فی صد) اور ایران ( 13 فی صد) سے ملتی ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ ان تینوں ممالک سے ہمارے تعلقات مسلسل خراب چلے آرہے ہیں۔
بھارت کی حد تک ہمارا موقف ہے کہ وہ ہندو ملک ہے اور ہمارے اس کے مابین صدیوں پر محیط مذہبی خلیج حائل ہے جسے پاٹنا ممکن نہیں ہے۔ ریاستی بیانیہ کے مطابق ہم اس مذہبی اختلا ف کی بنا پر ہی اس سے علیحدہ ہوکر ایک ملک کی صورت متشکل ہوئے تھے۔ لیکن افغانستان سے ہمارے غیر ہموارتعلقات کی خرابی کی بظاہر کوئی معقول وجہ نہیں آتی۔
ہماری ریاست کا بیانیہ ہے کہ پاکستان افغانستان میں ایک ایسی حکومت کے قیام کا متحمل نہیں ہوسکتاجو پاکستان کی طرف معاندانہ رویہ رکھتی ہواورنہ ہی افغانستان کو بھارت سے قریبی دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی اجازت دی جاسکتی کیونکہ بھارت کا پاکستان سے رویہ دشمنانہ ہے۔ کسی بھی آزاد اورخود مختار ملک کو یہ کیسے مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ دوسرے ممالک سے تعلقات کسی تیسرے ملک کی منشاو مرضی سے قائم کرے۔ یہ افغانستان کا حق ہے کہ وہ جس ملک سے چاہے تعلقات قائم کرے کسی دوسرے ملک کو ڈکٹیٹ کرنے کا کوئی اخیتار اور حق نہیں ہے۔
اسی طرح جس طرح پاکستان کو اپنے دوست ممالک کے انتخاب کا حق ہے اور افغانستان کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ پاکستان کو اس حوالے سے ڈکٹیٹ کرے۔ دراصل پاکستان افغانستان کو باجگزار ریاست خیال کرتا ہے جوپاکستان کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے ملک سے تعلق استوار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے جس کی بنا پر پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات آئےروز بد سے بد تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ پاکستان اگر چاہتا ہے کہ افغانستان سے اچھی ہمسایگی پر مبنی تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے تو اسے افغانستان کو زیادہ سے زیادہ اکاموڈیٹ کرنا چاہیے اوراس کی تجارتی اورسفارتی میدانوں میں مدد کرنا چاہیےاوران تمام عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔
ایران سے ہمارے تعلقات کیوں خراب ہیں اس بارے ہمارے ہاں کم ہی بات کی جاتی ہے۔ لیکن ملفوف انداز میں کہا جاتا ہے کہ دراصل یہ فرقہ ورانہ اختلاف ہے جو ایران اور پاکستان کے مابین تعلقات کی بہتری میں حائل ہے۔ فرقہ ورانہ اختلاف محض بہانہ ہے اصل مسئلہ سعودی عرب کا پاکستان پر اثر و نفوذ ہے جو دونوں ممالک کے مابین بہتر تعلقات کی راہ میں حائل ہے۔ سعودی عرب کا پاکستان پرحد سے بڑھا ہوا اثرپاکستانی ریاست کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ایران سے قریبی دوستانہ تعلقات قائم کرے۔
ہمسایہ ممالک لڑاکا ہمسایہ نہیں ہیں جن سے رہائش بدل کر جان چھڑائی جاسکتی ہے۔ پاکستان بھارت سے کسی صورت جان نہیں چھڑا سکتا اورنہ ہی بھارت پاکستان سے جان چھڑا سکتا ہے۔ دونوں کو اپنے کروڑوں عوام کی خاطر بہترتعلقات قائم کرنے از حد ضرورت ہے۔ بہتر تعلقات قائم کئے بغیر دونوں ترقی اورخوشحالی کی منزل حاصل نہیں کرسکتے۔
افغانستان سے اچھے تعلقات اور دوستی دونوں ممالک کے عوام کے حقیقی دشمن دہشت گردوں کو شکست دینے کے لئے ضروری ہے۔ جب تک یہ دونوں ملک باہم مل کرایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت دہشت گردی کے خاتمے کی کوششیں نہیں کریں گے دہشت گردی سے چھٹکارا ممکن نہیں اور دہشت گردی کی موجودگی میں ترقی کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
پاکستان سعودی عرب سے بہترین تعلقات رکھے لیکن سعودی عرب کی خاطر ایران سے تعلقات خراب کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کیا سعودی عرب اپنے تعلقات پاکستا ن سے پوچھ کر قائم کرتا ہے۔ سعودی عرب کے بھارت کے ساتھ بہترین سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ ہمیں بھی اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اپنے سیاسی۔ تجارتی اورمعاشی تعلقات کی اہمیت کو پیش نظر رکھ کر قائم کرنا چاہیئں۔