بیرسٹر حمید باشانی
ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، یہ کوئی ساکت و جامد شے نہیں ہے۔ یہ مسلسل بدلتی اور نشوونما پاتی ہے۔ دنیا میں کوئی نظام ، نظریہ یا خیال دائمی نہیں ہوتا۔ ہمارے ارد گرد کی ہر چیز بدلتی ہے، اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہے۔ نظریے اور نظام بدلتے ہیں، لیکن کچھ نظریات و نظاموں میں کچھ ایسے بنیادی اصول ہوتے ہیں، جو ہر تبدیلی کے بعد بہتر اور ترقی یافتہ شکل میں اپنا وجود برقرار رکھتے ہیں۔پاکستان میں جمہوریت بطور نظام اپنی تمام ترنا ہمواریوں کے باوجود چل رہی ہے۔ مگر اس جمہوریت کو مثبت تبدیلی اور نئے خیالات کو اپنے دامن میں سمونے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ یعنی جمہوریت کی بقا کے لیے، جمہوریت کا ترقی پسند ہونا ضروری ہے۔ ورنہ یہ ایک ساکت جامد اور رجعت پسندانہ آمریت کی شکل اختیار کر لیتی ہے، جو اپنے سلسلہ عمل میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
جمہوریت کے ساتھ ساتھ معاشی انصاف بھی اسی طرح کی ایک دائمی قدر ہے۔ اور ہر زمانے میں معاشی انصاف کی شکل و صورت اور اس کے چیلنج مختلف ہوتے ہیں۔ معاشی انصاف کا بھی ترقی پسندی کے ساتھ جڑا ہونا ضروری ہے، ورنہ یہ رجعت پسندانہ خیالات اور پالیسیوں کا شکار ہو کر معاشی جبر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یعنی آمریت پسندانہ اور رجعت پسند رویے اپنا کر کوئی قوم یا ریاست ترقی و خوشحالی کے راستے پر نہیں چل سکتی۔ اس کی ایک تاریخی مثال سابقہ سوویت یونین ہے۔
سوویت یونین ایک زمانے میں دنیا کی ایک عظیم سپر پاور اور ترقی پسند طاقت تھی، جس نے دنیا میں سماجی و معاشی ترقی کی نئی راہ کھولی تھی، نئی امید یں پیدا کر دی تھی۔ مگر آگے چل کر رجعت پسندانہ پالیسیوں کا شکار ہو کر یہ طاقت صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ گزشتہ دنوں ہمیں” زوم ریڈنگ روم “میں اس موضوع پر ایک شہرہ آفاق کتاب زیر بحث لانے کا اتفاق ہوا۔ کتاب کا نام ہے”انقلاب کو دھوکہ دیا گیا: سوویت یونین کیا ہے اور کہاں جارہا ہے؟”۔
یہ کتاب سن 1937 میں جلاوطن سوویت بولشویک، اور مارکسسٹ رہنما لیون ٹراٹسکی نے لکھی تھی۔ اس کتاب میں 1924 میں لینن کی موت کے بعد سوویت یونین میں تاریخی ترقی کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا، اور اس پر تنقید کی گئی تھی۔ اس کتاب کو اسٹالن ازم پرٹراٹسکی کا بنیادی کام سمجھا جاتا ہے۔ یہ کتاب ٹراٹسکی نے جلاوطنی کے دوران لکھی تھی ۔ وکٹر سرج نے سب سے پہلے اس کا ہسپانوی میں ترجمہ کیا تھا۔آگے چل کرمیکس ایسٹ مین نے اس کا انگریزی ترجمہ کیا تھا، جو دنیا بھر میں بہت مقبول ہوا۔ اور آج تک دنیا بھر میں پڑھا جا رہا ہے۔
ٹراسٹکی کا اصل نام لیو ڈیوڈووچ برونسٹین تھا۔ لیکن وہ اپنے تخلص لیون ٹراٹسکی کے ذریعہ مشہور ہوا ۔ وہ روس کے 1917 کے اکتوبر انقلاب کے دوران ان سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک تھے ،جنہوں نے روس میں روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی ، جسے بالشویک بھی کہا جاتا ہے کو اقتدار میں لانے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ۔ لیون ٹراٹسکی طویل عرصے سے زارشاہی جاگیردار روس میں مارکسی انقلاب کے ایک سرکردہ انقلابی تھے ، جنھیں 1900 میں حکومت کے خلاف سرگرمیوں کے سبب سائبیریا کے ایک دور دراز علاقے میں جلاوطنی کی سزا سنائی گئی۔ ان کی جلاوطنی اور سائبیریا سے فرار کی کہانی “ایک نوجوان کی پوٹریت :اور “سائبریا سے میرا فرار” جیسی مشہورکتابوں یں تفصیل سے قلم بند کی گئی ہے۔
سائبیریا سے فرار کے بعد یورپ میں جلاوطنی کا کچھ عرصہ گزارنے کے بعد لیون ٹراٹسکی1905 کے روسی انقلاب کے دوران واپس روس لوٹے۔ روس میں یہ ایک ہیجان خیز دور رتھا، جس کے دوران سینٹ پیٹر برگ میں ان کی جوشیلی تقاریر نے ان کو ایک مشہور انقلابی شخصیت بنا دیا۔ان کی تقاریر سے خوف زدہ اشرافیہ نےاسی سال دسمبر میں انکو گرفتار کر لیا ۔ اس کے بعد ٹراٹسکی کو دوبارہ فرار ہوکر ٘مغربی یورپ کے مختلف ممالک میں جلاوطنی اختیارکرنی پڑی۔ جلاوطنی کے دوران ٹراٹسکی روسی سیاست میں بدستور متحرک رہے۔ اگلے عشرے کے دوران وہ روسی انقلابیوں میں اختلافات ختم کرانے اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے دھڑوں میں اتحاد کے لیے کوشاں رہے۔
پہلی جنگ عظیم کے آخری ایام میں روس کی پرانی حکومت تقریبا زمین بوس ہونے کے قریب تھی۔ اس صورت حال نے مختلف دھڑوں کو لینن کی سربراہی میں بالشویک حریفوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کی ترغیب دی۔ ان بدلتے ہوئے حالات میں 1917 کے اوائل میں ٹراٹسکی نیو یارک شہر میں اپنی جلاوطنی ترک کر کہ کینیڈا کے راستے واپس روس آئے ،اور بالشویک پارٹی کی گورننگ سنٹرل کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھا ل لیں۔ ٹراٹسکی نے ان حالات میں کیرینسکی کی سربراہی میں قائم روسی عارضی حکومت کے اقتدار پر قبضہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اکتوبر کے اوائل میں پیٹرو گراڈ سوویت کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے اور اس ادارہ کی عسکری انقلابی کمیٹی کی تشکیل کے لئے بھی ٹراٹسکی نے اہم رول ادا کیا تھا۔
کیرانسکی حکومت کے خاتمے کے بعد ، ٹراٹسکی کو سوویت روس کے آر ایس ایف ایس آر کا پہلا پیپلز کمشنر برائے خارجہ امور نامزد کیا گیا۔ اپریل 1918 میں ، ٹراٹسکی کو پیپل کمیسار برائے جنگ اور بحریہ نامزد کیا گیا ، جس کی مدد سے انہوں نے ” سرخ فوج” کی تعمیر میں مدد کی جس نے روسی خانہ جنگی میں بادشاہت کی بحالی کے خواہاں افواج کے خلاف نئی حکومت کا دفاع کرنا تھا۔
لینن کو 1923 میں فالج کے پے در پےحملوں کے نتیجے میں فعال سیاسی زندگی سے کنارہ کش ہونا پڑا۔ اس دوران مختلف متحارب گروہوں کے درمیان اقتدار و اختیار کی کشمکش شروع ہوئی۔ جنوری 1924 میں لینن کی موت کے بعد متعدد چوٹی کے لیڈروں کی سوویت اقتدار پر قبضے اور بالادستی کی جنگ زور پکڑ گئی۔ لینن کے دیرینہ ساتھی اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کے سربراہ گریگوری زینوف ، ماسکو پارٹی کے رہنما لییو کامینف ، قومیتوں کے ماہر اور پارٹی تنظیم کے سکریٹری جوزف اسٹالن ، اور لیون ٹراٹسکی نے پارٹی اور ریاستی طاقت کے نمایاں دعویداروں کی اس کشمکش میں نمائندگی کی۔ اس کشمکش کے دوران ٹراٹسکی کو تین دیگر اہم دعویداروں نے ایک سنگین سیاسی خطرہ کے طور پر پیش کیا ،اور ٹراٹسکی کے خلاف تینوں نے مل کر ایک عارضی اتحاد تشکیل دیا ۔
اگلے کئی سالوں میں ٹراٹسکی اور اس کے حامیوں کو سوویت لیڈر شپ گروپ نے سوویت سیاست اور اقتدار سے بالکل الگ تھلگ کردیا۔ حکمران اشرافیہ نے سیاست سے بے دخل کرنےکے لیے ٹراٹسکی کو یکے بعد دیگرے جلاوطن کرنے کا عمل جاری رکھا۔ ، پہلےان کوسوویت وسطی ایشیاء کے دور دراز شہر الما عطا میں اوراگلے سال سوویت یونین سےبے دخل کر کے ترکی میں جلاوطن کر دیا گیا۔
سوویت یونین میں اپنے پیروکاروں سے علیحدہ ہونے کے باوجود ، ٹراٹسکی نے پوری زندگی اپوزیشن کے سیاسی رہنما کی حیثیت سے جلاوطنی کے دوران اپناکام جاری رکھا۔ اگرچہ جلاوطنی کے دوران ان کا قافیہ تنگ کرنے کی کوشیش جاری رہیں۔ جوزف اسٹالن کی سربراہی میں سوویت حکومت کی جانب سے متعدد مغربی میزبان ممالک کے خلاف سیاسی دباؤ ڈالا گیا ،اور ان ملکوں سے ٹراٹسکی کی جلاوطنی کا مطالبہ کیا جاتا رہا، جس کی وجہ سے ٹراٹسکی کوسخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
سال1935 کے موسم بہار میں پریشانی کا شکار ٹراٹسکی نے باضابطہ طور پر ناروے میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت سکنڈے نیویا بادشاہت کے تحت ناروے میں لیبر پارٹی کی حکومت تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس کی درخواست پرناروے کا ردعمل سست تھا ۔ اور جون کے شروع میں ہی ٹراٹسکی کو مطلع کیا گیا تھا کہ ان کی درخواست منظور کرلی گئی ہے اور وہ ویزا حاصل کرنے کے لئے پیرس میں ناروے کے سفارت خانے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ ٹراٹسکی یہ دستاویز حاصل کرتے اس سے قبل ہی ناروے میں سیاست دانوں نے مداخلت کی ، ویزا کی منظوری کو منسوخ کردیا گیا۔
ٹراٹسکی 10 جون کو سفارتخانے پہنچے۔ فرانسیسی پولیس کو شبہ تھا کہ ٹراٹسکی پیرس میں رہائش حاصل کرنا چاہتے ہیں ، جبکہ پہلے ہی ان پر ایسا کرنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی ۔ چنانچہ پولیس نے فوری طور پر ٹراٹسکی کو شہر سے باہر جانے کا حکم دے دیا۔ ناروے کے لئے ٹراٹسکی کواپنا طے شدہ سفر اچانک منسوخ کرنا پڑا۔
ناروے کے حکام نے مطالبہ کیا کہ ناروے کے سفر کا ویزا ملنے سے قبل ٹراٹسکی فرانس میں دوبارہ داخلے کے لئے اجازت نامہ حاصل کریں۔ یہ ایک مشکل بلکہ انہونی شرط تھی۔ آخر کار ٹراٹسکی اور ناروے کے حکام کے درمیان خط و کتابت اور گفت و شنید کے بعد ، فرانس میں دوبارہ داخلے کے اجازت نامے کی شرط ختم کردیا گیا اور ٹراٹسکی کو ناروے میں داخلے کے لئے چھ ماہ کے محدود ویزے کی اجازت دی گئی۔ ناروے کی حکومت نے ٹراٹسکی کی رہائش گاہ کا تعین کرنے اور اسے دارالحکومت اوسلو سے خارج کرنے کا حق اپنے لئے محفوظ کر لیا۔ اور ٹراٹسکی 18 جون ، 1935 کو ناروے پہنچا، جہاں بلاخر اس نے اپنی کتاب مکمل کی۔
مشہور تاریخ دان باروک کنی پاز نے ٹراٹسکی کی کتاب انقلاب کے ساتھ دھوکہ “اسٹالنزم پر بڑا کام” قرار دیا ہے اور ایک دانشورانہ سروے میں بیوروکریسی کے بارے میں ٹراٹسکی کی سوچ کا نچوڑ قرار دیا۔
کنی پاز کے خیال میں ، ٹراٹسکی نے انقلاب کے ساتھ دھوکہ دہی کے ذیلی عنوان میں – “سوویت یونین کیا ہے اور یہ کہاں جارہا ہے؟” – کتاب کے پیچھے مصنف کے ارادے کا صحیح طور پر خلاصہ کیا ہے۔ ٹراٹسکی اس سوال سے دوچار ہے کہ کیا سوویت یونین میں ابھرتی ہوئی بیوروکریٹک سیاسی اور معاشی تشکیل نے ایک نیا معاشرتی ماڈل تشکیل دیا ہے جو اس سے پہلے مارکسی نظریےمیں نہیں تھا۔ کنی پاز نے زور دے کر کہا کہ ٹراٹسکی نے اصرار کیا کہ سوویت نظام نے اس طرح کا کوئی نیا معاشرتی اور معاشی نظام تشکیل نہیں دیا ۔
کتاب سٹالن ازم کے زیر اثرسوویت یونین اور اس کے حکمرانوں پر سخت تنقید ہے ، اور اسٹالنسٹ آمریت کو ختم کرنے اور سوشلسٹ جمہوریت لانے کے لئے ایک نئے سیاسی انقلاب کی حمایت کرتی ہے۔ یہ کتاب معاشی پیشرفت کی حدود کا جائزہ بھی لیتی ہے۔ نئے حکمران اشرافیہ طبقے کی نوعیت ، اور اسٹالنسٹ حکمرانی کے نتیجے میں سوویت یونین کے خاتمے کی پیش گوئی کرتی ہے۔ یہ تجزیہ کرنےکے مارکسی طریقہ کار پر زور دیتی ہے، اور کئی اہم مشاہدات اور پیش گوئیاں کرتی ہے ، جن میں سے کچھ کئی دہائیوں کے بعد سچ ثابت ہوئی ہیں۔
اس کتاب کے پہلے چند ابواب میں روس کی پالیسی میں “زگ زیگ” کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ ٹراٹسکی نے پارٹی کی پالیسی میں ، جمہوریت کی کمی کے براہ راست نتیجہ کے طور پر پالیسی میں تیز تبدیلیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی وضاحت کی ہے۔ ٹراٹسکی نے اقتصادی پالیسی کے میدان میں ان ‘زگ زیگز‘ میں سب سے زیادہ اجاگر کیا ۔ اس نےاسٹالن کی پالیسی پر تنقید کی جس نے پہلے رضاکارانہ اجتماعی اور زمین کی نجکاری میں اضافہ کی مخالفت کی، اور پھر اچانک یوٹرن لینے کے بعد ٹوٹ پھوٹ کی صنعتی اور جبری اجتماعی سازی کی پالیسی اپنائی ، جس کو ٹراٹسکی نے “معاشی مہم جوئی” قرار دیا ،جس نے “قوم کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا۔
اس کے بعد ٹراٹسکی نے روس میں انقلاب کے بعد کے مراحل کا تجزیہ کیا جب قدامت پسند قوتوں نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ وہ اسٹالن کی فتح ، پارٹی کو بالشویزم سے الگ کرنے ، اور بیوروکریٹک ڈھانچے کے بڑھتی ہوئی گرفت کا تجزیہ کرتا ہے۔ ٹراٹسکی کے خیال میں سوویت یونین میں حکمران طبقہ نہ تو سرمایہ دار ہے ،اور نہ ہی مزدور ، بلکہ اپنی طبقاتی جڑوں سے کٹے ہوئے طبقے کا ایک حصہ ہے ، جو زار روس کے دور کی بیوروکریسی اورغیر سیاسی مزدور طبقےسے متاثر ہے۔
ٹراٹسکی نے اسٹالنزم کو “بوناپارٹزم” سے تعبیر کیا ۔ وہ انقلاب کے حالات کا فرانسیسی ڈکٹیٹر نپولین بوناپارٹ اور فرانسیسی ریاست پر اس کے قبضہ کے ساتھ موازنہ کرتاہے۔ بالکل اسی طرح جیسے بوناپارٹ نے اشرافیہ کے کے روایتی پھندوں کو واپس لایا اور سرمایہ دار سماجی نظام کے رہنما ہونے کے باوجود سرمایہ داروں کو قید کردیا۔
اسٹالن نے منصوبہ بند معیشت اور برائے نام عوامی ملکیت کے حصول میں ناکام ہونے کے باوجود کارکنوں کو قید کردیا اور زار کی طرح برتاؤ کیا۔ اسی کے ساتھ ہی ، ٹراٹسکی لکھتا ہے کہ حکمران طبقہ باقی معاشرے کو غریب بنا دیتا ہے ۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ “ایک منصوبہ بند معیشت کو اسی طرح جمہوریت کی ضرورت ہوتی ہے، جس طرح انسانی جسم کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے“۔ جمہوریت کے بغیر ،معاشی جمود ناگزیر ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد وہ سوویت یونین میں روزمرہ کی زندگی پر روشنی ڈالتا ہے۔ معاشی عدم مساوات اور نئے پرولتاریہ کے جبر کے بارے میں بات کرتا ہے۔ وہ خواتین اور خاندان کے ساتھ سلوک میں بڑھتی ہوئی قدامت پسندی کو براہ راست اسٹالن ازم کے عروج سے جوڑتا ہے ، اور اس کا موازنہ انقلاب سے پہلے کے عہد سے کرتا ہے۔ وہ خارجہ پالیسی اور سوویت فوج کی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ وہ فاشزم کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے۔ اور ان حالات و اقدامات کی روشنی میں وہ سوویت یونین کے مستقبل کا جائزہ پیش کرتا ہے۔
ٹراٹسکی کی پیش گوئیوں میں ایک اہم بات یہ ہے کہ سوویت یونین میں یا تو سیاسی انقلاب کے ذریعہ حکمران بیوروکریسی کا خاتمہ ہو گا ، یا بیوروکریسی کی سربراہی میں سرمایہ دارانہ نظام بحال ہو جائے گا۔ یہ پیش گوئی ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب زیادہ تر تجزیہ کار خواہ وہ ،سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہوں یا اسٹالنسٹ دونوں سوویت اقتدار وطاقت میں مسلسل اضافے کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ بہرکیف آگے چل کرٹراٹسکی کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ جمہوریت کی کمی اور اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ٹیکنالوجی جو اس وقت معیشت کی منصوبہ بندی کرنے کے لئے اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی معاشی جمود کا باعث بنی۔
صورت حال بگڑتی گئی اور سن ستر کے آخر میں سوویت معیشت میں جمود بہت واضح نظر آنے لگا۔ حکمران اشرافیہ اس کا تخلیقی حل تجویز کرنے میں ناکام رہی۔ وہ نئے دور کے تقاضوں اور حالات کی سگینی کا ادراک بھی نہ کر سکے۔ آگے چل کر حالات ان کے قابو سے نکل گئے۔ حکمران جماعت کے سرکردہ ارکان اور حکمران اشرافیہ کے مراعات یافتہ طبقات نے 1980 کی دہائی میں سوشلزم کی زیادہ جمہوری شکل کو وسعت دینے کی بجائے ، سرمایہ دارانہ اصلاحات کو فروغ دے کر جمود کا جواب دیا۔
اس کے ایک دہائی کے بعد ، پارٹی کے سابق ممبروں میں کسی واضح نظریاتی تکلیف کے بغیر سرمایہ دارانہ نظام کو مکمل طور پر قبول کرلیا گیا ، جو سوویت روس کے بعد روس میں نئی معاشی طبقہ بن گئے، جبکہ 1990 کی دہائی میں سوویت عوام کا معیار زندگی سخت قسم کی زوال پذیر ی کا شکار ہو گیا۔ اس طرح ٹراٹسکی نے جو سائنسی پیشن گوئیاں کیں تھیں، بڑی حد تک درست ثابت ہوئیں۔ کچھ لوگوں کے لیے سوویت یونین کا ٹوٹنا ایک عظیم المیہ تھا۔ مگر اس المیے کے اندر یہ سبق بڑا واضح تھا کہمعاشی مساوات،جمہوریت، شہری آزادیوں، اور جمہوریت میں عوام کی سرگرم شرکت کے بغیر کوئی نظام زیادہ دیرنہیں چل سکتا۔