ایک معروف امریکی تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مودی اور ان کی ہندو قوم پرست جماعت المناک حد تک آمریت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
بھارت نے امریکی حکومت کی امداد سے چلنے والے ایک معروف ادارے ‘فریڈم ہاؤس‘ کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے، جس میں نریندر مودی کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی مبینہ بدترین صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتی آزادی اور جمہوریت کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اسے “جزوی طور پر آزاد” ملک کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔
بھارت کا کہنا ہے کہ اس طرح کی رپورٹ گمراہ کن ہے اور اسے اس بارے میں نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں انتخابات کے ذریعے بی جے پی کے علاوہ دوسری جماعتوں کی بھی حکومتیں قائم ہیں اور اس سے، “واضح ہے کہ ملک میں مضبوط جمہوریت کام کر رہی ہے اور جو مختلف نظریات کے حامل افراد کو بھی برابر کے مواقع فراہم کرتی ہے“۔
بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا، “خاص طور پر ایسے ان لوگوں سے ہمیں اس بارے میں نصیحت سننے کی ضرورت نہیں ہے، جو اپنی بنیادی باتوں کو ٹھیک نہیں کر سکتے ہیں۔ ‘فریڈم ہاؤس‘ کے سیاسی فیصلے ان کے پاس ہمارے نقشوں کی طرح ہی غلط اور مسخ شدہ ہیں۔“۔
بھارتی وزارت خارجہ کا اشارہ اس جانب تھا کہ ‘فریڈم ہاؤس‘ کے پاس جو بھارتی نقشہ ہے وہ بھی غلط ہے۔ متعدد بین الاقوامی تنظییں اور ادارے بھارت کے نقشے میں متنازعہ علاقے جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ نہیں دکھاتے ہیں جس پر بھارت کو شدید اعتراض ہے۔
واشنگٹن میں واقع ادارے ‘فریڈم ہاؤس‘ نے بدھ تین مارچ کی شام کو “فریڈم ان دی ورلڈ” عنوان سے جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اپنے مسلم شہریوں کے خلاف امتیازی سلوک بدستور جاری ہے اور حکومت کے ناقدین اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہی وجوہات کے سبب رواں برس کی درجہ بندی میں بھارت کی پوزیشن کافی نیچی آگئی ہے۔
رپورٹ میں، “متعدد برسوں کے ایسے طریقہ کار کا حوالہ دیا گيا ہے، جس کے تحت ہندو قوم پرست حکومت اور اس کے اتحادی بڑھتی ہوئی پر تشدد کارروائیوں اور تفریق پر مبنی سلوک کی رہنمائی کرتے رہے ہیں” ۔اس رپورٹ میں گزشتہ برس دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات، حکومت کے ناقدین کے خلاف بغاوت کے مقدمات اور کورونا وائرس کے سد باب کے لیے مودی حکومت نے جو لاک ڈاؤن نافذ کیا اس دوران مہاجر مزدوروں پر گزرنے والے آلام و مصائب کا خاص طور پر ذکر کیا گيا ہے۔
بھارت کی وزارت اطلاعات و نشریات نے بھی ایک علیحدہ بیان میں امریکی ادارے کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا، “بھارت کو آزاد ملک سے جزوی طور پر آزاد ملک کی فہرست میں رکھنا پوری طرح سے غلط، گمراہ کن اور غیر متوقع بات ہے“۔
بیان کے مطابق، “بھارتی حکومت آئین کے مطابق تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتی ہے اور سب کے خلاف ایک ہی طرح کے قانون کا نفاذ ہوتا ہے۔ امن و امان سے متعلق معاملات میں بھی بلا امتیاز مذہب و ملت قانون کے مناسب عمل کی پیروی کی جاتی ہے۔“
لیکن امریکی ادارے کی رپورٹ میں حوالوں کے ساتھ تفصیل سے بتایا گيا ہے کس طرح، “مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی رہنمائی میں انسانی حقوق کی تنظیموں پر دباؤ ڈالنے، دانشوروں اور صحافیوں پر دھونس جمانے اور لنچنگ سمیت مسلمانوں پر سلسلہ وار متعصبانہ حملے جاری رہے ہیں“۔
اس رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ مودی کی حکومت اور ریاستی سطح پر اس کے دوسرے اتحادیوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف جہاں سخت کارروائیاں جاری رہیں، وہیں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے، “مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنايا گيا اور انہیں غیر مناسب طریقے سے اس کا ذمہ دار ٹھہرا یا گيا، ۔” اس سے ان پر ہندو گروپوں کی جانب سے حملے بڑھ گئے۔
لیکن مودی حکومت نے ان پہلووں پر امریکی ادارے کی تنقید کو مستر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں بحث و مباحثہ، سیاسی تکرار اور بھارتی جمہوریت کا ایک اہم حصہ ہے۔ بیان کے مطابق “حکومت ہند صحافیوں سمیت ملک کے تمام باشندوں کی حفاظت اور سلامتی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ حکومت ہند نے اس سلسلے میں ریاستی اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں صحافیوں کے تحفظ سے متعلق خصوصی ایڈوائزری بھی جاری کی ہے“۔
اس رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ مودی کے 2019 ء میں دوبارہ انتخابات میں کامیاب ہونے اور کورونا وائرس کی وبا کے دوران حکومت نے جو اقدامات کیے اس سے انسانی حقوق کےمزید متاثر ہو نے جیسی وجوہات کے سبب بھارتی آزادی کی ریکنگ میں اس قدر تنزلی آئی ہے۔
dw.com/urdu