ذوالفقارعلی زلفی
عظیم انقلابی رہنما کامریڈ لینن نے خواتین کے مسائل پر بحث کرتے ہوئے فرمایا “صرف یہ بات اہم نہیں ہے کہ آپ کیا مطالبہ کرتے ہیں بلکہ یہ بھی اہم ہے آپ وہ مطالبہ کیسے کرتے ہیں“۔ اسی بحث میں وہ آگے چل کر کہتے ہیں “خواتین کے مسائل کے حوالے سے ہمیں لکیر کا فقیر نہیں بننا چاہیے، ہمیں کبھی ایک مطالبے کے لیے اور کبھی دوسرے مطالبے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے اور یہ سب پرولتاریہ کے مفاد میں ہونا چاہیے تاکہ ہم ان تمام خواتین کا اعتماد جیت سکیں جو مردوں کے تسلط، آجروں کی طاقت، بورژوا سماج سے خود کو استحصال زدہ، محکوم اور کچلی ہوئی محسوس کرتی ہیں” ـ (کلارا زیٹکن سے مکالمہ ـ ترجمہ: سی آر اسلم)۔
کامریڈ لینن کے درج بالا خیالات کو فی الحال یہاں چھوڑ کر کوئٹہ کے افسوس ناک واقعے کا رخ کرتے ہیں ـ
آٹھ مارچ 2021 کو کوئٹہ کے ایک مارکسسٹ (جعلی) گروہ نے دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر عالمی محنت کش خواتین کا دن منایا ـ اس نام نہاد مارکسی گروہ نے اپنے پروگرام میں بانک کریمہ بلوچ کی تصویر لانے پر پابندی لگا دی ـ عذرِ لنگ تراشا گیا کہ بانک کریمہ بلوچ چوں کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سربراہ تھی اور یہ تنظیم مسلح جدوجہد کی حامی ہے لہذا ہم اپنے نظریاتی اختلاف کے باعث بانک کی تصویر کی اجازت نہیں دے سکتے ـ ایک مارکسی تو اس حد تک “مارکسزم” کے متوالے نکلے فرمایا؛ اگر کل جام کے ساتھ ریاست جبر کرے تو کیا ہم ان کی بھی حمایت کریں؟ ۔ اس “مارکسزم” پر کون نہ مر جائے اے خدا۔
بانک کریمہ بلوچ نے نجی ملکیت کے تصور پر قائم ایک نوآبادیاتی سماج میں آنکھ کھولی ـ ایک ایسا سماج جو نیم قبائلی و نیم جاگیردارانہ پیداواری نظام کے باعث عورت کو عضوِ معطل سمجھتا ہے ـ بانک نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی دو طرفہ لڑائی شروع کردی ـ ایک لڑائی نوآبادکاروں کے خلاف اور دوسری فرسودہ سماجی اقدار و روایات کے خلاف۔
اس لڑائی میں بانک کریمہ بلوچ کو بدترین صدمے اٹھانے پڑے ـ ظاہری دشمن تو دشمن بعض دوست نما دشمنوں نے بھی ان کے خلاف محاذ کھڑا کردیا ـ ان کی نسائیت کو نشانہ بنایا گیا ، ان کے خاندان کے افراد پر زمین تنگ کردی گئی، ان کے دوست یکے بعد دیگرے جبری گمشدگی و مسخ لاش بننے کی پالیسی کا شکار ہوتے گئے ۔ انہوں نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری ـ زندگی کی آخری سانس تک وہ دونوں محاذوں پر بے جگری سے لڑتی رہیں ـ انہوں نے تاریکی کی قوتوں کے خلاف مزاحمت کرتے کرتے اپنی پوری جوانی لٹادی ـ قتل/شہادت کے بعد بھی تاریکی کی قوتوں نے انہیں نہیں بخشا ـ ان کی میت چوری کر لی گئی، تدفین میں روڑے اٹکائے ـ گویا وہ ایک ایسی مزاحمتی خاتون بن کر سامنے آئی جو زندہ نہ ہو کر مزاحمت کی علامت ہے ـ
بلوچ سمیت پاکستان بھر کی مزاحمتی خواتین نے نظری و سیاسی اختلاف کے باوجود انہیں رول ماڈل قرار دیا ـ ان کی جدوجہد اور مصائب برداشت کرنے کی جرات کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔بلوچستان کی معلوم تاریخ میں وہ واحد خاتون ہیں جو صرف اور صرف اپنی جدوجہد کی وجہ سے ایک نوآبادیاتی، نیم قبائلی و نیم جاگیردارانہ سماج میں عظمت کی اس بلندی تک پہنچی ـ سماج کی ہر خاتون ان کو مشعلِ راہ سمجھتی ہے ۔
ایک ایسی خاتون سے علیحدگی اختیار کرنا، ان کی تصویر تک کو ناقابلِ برداشت سمجھنا لینن کی زبان میں بلوچستان کی عورت سے، اس کے اعتماد جیتنے کے عمل سے کنارہ کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے ـ ایک مارکسسٹ کبھی بھی ایسا نہیں کرے گا ۔اس کی ہر ممکن کوشش ہوگی کہ وہ کچلے ہوئے طبقات کو اپنے ساتھ ملائے، ان کے جذبات اور احساسات کا احترام کرکے ان کا اعتماد جیتے تانکہ پھر انہی کے ذریعے مروجہ سماجی نظام پر حملہ کر سکے ۔
کوئٹہ کے “مارکسیوں” نے لیکن ایسا کرنے کی بجائے ایسٹبلشمنٹ کے حامی بدبودار پاکستانی قوم پرستوں جیسا نوآبادیانہ رویہ اختیار کرکے زمین سے جڑے لوگوں کے جذبات و احساسات کی توہین کا راستہ اختیار کیا ۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اس حماقت کو مارکسزم کا نام دیا جارہا ہے۔ یہ مارکسزم نہیں منافقت ہے ۔
یہ بلوچ عوام کی توہین ہے ۔ بلوچ عورت کی جدوجہد اور اس کی قربانیوں کی توہین ہے۔ یہ سراسر بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تسلسل ہے ـ یہ بلوچ عوام کے ساتھ نفرت کا عمل ہے ۔
ایک لینن اسٹ ہونے کی حیثیت سے یہ میرے لیے شرم اور صدمے کا باعث بنا ـ میری عوام سے اپیل ہے ایسے تمام جعلی مارکسسٹوں کو مسترد کریں ـ ان کا ہر سطح پر بائیکاٹ کریں ـ یہ مارکس کے لبادے میں فوجی جرنیل ہیں ـ فوجی جرنیل کے ساتھ کیا ، کیا جانا چاہیے یہ بلوچ عوام کو بتانے کی ضرورت یقیناً نہیں ہے۔