جب کراچی لٹریچر فیسٹیول منعقد ہونے جا رہا تھا تو میں نے لکھ دیا کہ اس میں بلوچ، بلوچستان اور مسنگ پرسنز کا تذکرہ ضرور ہونا چاہیے کیونکہ آپ جب عصرِ حاضر کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں تو اس میں بلوچستان کو خونم خون پائیں گے اور اس میں انسانیت کوزندہ درگور ہونے کے حوالے دورجاکر تلاشنے کی کوشش نہ کریں ۔ یہ سب انسانیت سوز حوالے بلوچ دھرتی میں دیکھ سکتے ہیں جو پچھلے کئی دہائیوں سے ایک نامختتم آزار کی شکل میں رواں سانس کی طرح وجود کا لازمہ بنا ہوا ہے۔
البتہ یہ سب جھیلنے کے لیے واقعتاً ادیب ہونا شرط ہے اور کہانیاں اوڈھی ہوئی سچائیاں نہیں مانگتی بلکہ ازخود جینے کی صورت کا تقاضا کرتی ہیں۔ جس کے لئے آج کے ادیب کو یہ سب جاننے کے لئے شوگر کوٹڈ لفظ سے باہر آکر لکھنا ہے۔ وگرنہ اس کی حالت معمول کے مطابق منعقدہ تقریب کی شکل میں دکھائی دے گی جس میں انسانی آزار کے جِلو میں بلوچ کا آزار کہیں مفقود ملے گا۔لیکن اُس جیسا ہم نے سوچا کہ ان سوالوں کے سامنے آ کھڑے ہونگے۔
چونکہ مملکتِ خداداد اور اس کے بیشتر لکھنے والے سوال سے کتراتے ہیں اور بات جب ریاستی تشدد اور انسانیت کو زندہ درگور کیے جانے والی ذہنیت و کردار کی ہو تو اس میں ضرور اگر مگر کے اشاریے دیکھنے کو ملیں گے تاہم جنھوں نے سوال کیا وہ خود سوال بنا دیے گئے جن کا جواب ہنوز وقت کے کسی جینوئن لکھنے والے کے انتظار میں ہے۔
اس بار سندھ لٹریچر فیسٹیول نے اظہاریہ تراشنے کا قرینہ تلاش لیا کہ بلوچ اور بلوچستان کی بات سُنیں گے لیکن یہ مجلس شروع ہونے سے پہلے ہی ایس ایل ایف کی ٹیم لیڈر کے کاندھے پر بیٹھے کراماً کاتبین نے ایک پرچی تھما دی کہ ان کا سچ ہم سہار نہیں پائیں گے ۔پہلے پہل کراماً کاتبین لکھا کرتے تھے اب کے ہدایت نامہ جاری کرنے کی صورت لیے ازخود یہ کہہ گئے کہ سیشن کو سُنے اور دیکھے بغیر کوچ کر جانے میں عافیت جانیں ۔
بہت پہلے ہمارے ایک محبوب شاعر ساقی فاروقی کو کیا پتا تھا کہ وہ جب “ہدایت نامہ شاعر” لکھ کراردو ادب میں جرأت مندانہ اظہاریہ کی توثیق کر گئے اور آنے والے دنوں میں اس کی چلن ضرور صورت پذیر ہوگی ۔جبکہ یہاں اب تو ہدایت نامہ کی نوعیت ہی بدل گئی اور اس کو اب کے کراماً کاتبین جاری فرمایا کرتے ہیں۔
البتہ رنج یہ رہا کہ سندھ تو مزاحمت کی روایت کے تناظر میں ایک بھرپور زندگی آموز حوالہ رکھتے ہیں۔ جانے کیونکر انھوں نےبات مان لی اورانکارنہ کیابلکہ اپنا طےشدہ پروگرام ختم کیا۔اگر بقول شخصے آرٹس کونسل کی انتظامیہ مانع رہا تو یہ سب بالکل اسی طرح جگہ بدل کر اہتمام کرسکتے تھے جس طرح بعدازاں بلوچ لیکھک اور خاک نشین کر گئے ۔شاید ان کے حصے میں مقتدرہ کی قلم سے یہ تاریخ بھی جبرکی شکل میں اپنی سیاہی چھوڑ کرجانے کا دلدوز اشاریہ مرتب کر گیا۔ جس کی مٹی نےہمیشہ اپنے سپوت اور لیکھک کی شکل میں زندگی کو برتر معنویت سے سرفراز کرنے کا وطیرہ خلق کیا اور لفظ کی حُرمت کا مان رکھا۔
لیکن اس وقت ان کو مجبورِ محض پاکر اس روایت کی بھی سانسیں سلب ہوتی ہوئی دیکھی گئیں۔احباب تو یہ کہہ کر خود کوتسلی دیتے رہےکہ بلوچ اور سندھی کی ایک سانجھی روایت اور سانجھا غم کا رشتہ ہے جس کو ناخن اور گوشت سے تعبیر کرتےہیں۔اب کے یہ سب دیکھ کر یہ سانجھا ارتباط اساس لفظ بھی کچھ ڈرا سہما سا دکھائی دیتا رہا ہے ۔۔
اور پھر ہم باغِ جناع کے سبز گھاس پر بیٹھ کر کسی ویڈیو کلپ کی صورت ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب اور طالب علم رہنما بانک ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو سُن اوردیکھ رہے تھے کہ انھوں نے کس طرح فتح مندی کی مسکراہٹ میں مقتدرہ کے نام شکست لکھ دی اور اس بیچ شاہ محمد مری نے بڑے مہروان لفظوں میں احتجاج کی صورت وضع کی اور اپنی بات کہہ دی۔
چونکہ بلوچ اور بلوچستان اس وقت زندہ بلوچ اور مردہ بلوچ کی معنویت جاننے میں منہمک ہے اور اس کگار پر کھڑے زندگی کرنے کا سلیقہ تلاش رہے ہیں کہ اس میں آپ ضرور کہیں نہ کہیں ان سے مل سکتے ہیں چہ جائیکہ وہ علم وادب کا میدان ہو یا اقتدار کی غلام گردشوں میں زندگی تراشنے کی مکر چاندنی سرشت کردار ہوں،جن کو ہم۔آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ویسےبھی اس مملکت کو بے چہرہ لوگ اور قیادت ہمیشہ سے عزیز رہے ہیں۔
♥