محمد شعیب عادل
فوجی قیادت میں اختلافات تو بہت پرانے ہیں اس کی ایک بنیادی وجہ تو پاکستان آرمی کا سیاست میں ملوث ہونا ہے۔ جب فوج سیاست کرے گی تو پھر اس پر تنقید بھی ہوگی ۔ لیکن ان میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب افغانستان کے جہاد کی بدولت دولت کی ریل پیل ہوئی ۔ ضیا الحق کی موت اسی سیاست کا شاخسانہ تھی۔
بات شروع کرتے ہیں جنرل مشرف کے دور سے، 1999 میں جب نواز شریف کے دور میں بھارتی وزیراعظم واجپائی بس ڈپلومیسی کے ذریعے لاہور آئے تو پاکستان آرمی اس حرکت سے شدید ناراض تھی اور جنرل مشرف بطور آرمی چیف نے ان کے استقبال سے معذرت کرلی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اسے سیلیوٹ نہیں کرسکتے۔ بلکہ آئی ایس آئی نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کے ذریعے واجپائی کے کاروں کے اس قافلے پر پتھراو کروایا جو ان کے اعزاز میں لاہور کے شاہی قلعے میں منعقد کیا گیا تھا جس میں غیر ملکی سفیر بھی شامل تھے اور جن کی گاڑیاں اس پتھراؤ کا نشانہ بھی بنیں۔ بعد میں نواز شریف حکومت نے جماعت اسلامی اور جمعیت کے ان کارکنوں کو کڑی سزائیں دلوائیں جو اس پتھراو میں ملوث تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے جمیعت کے دوست باہر نکل کر اپنے تشدد زدہ جسم دکھاتے تھے ۔
بہرحال نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور جنرل مشرف اقتدار پر قابض ہوئے ۔ امریکہ سمیت مغربی دنیا میں جنرل مشرف کے اس اقدام کو کبھی سراہا نہیں گیا بلکہ امریکی صدر کلنٹن نے بھارت کے دورے کے بعد پاکستان کے مختصر دور پر اسلام آباد آئے اور جنرل مشرف سے ملاقات سے بھی انکار کردیا۔
اس دوران نائن الیون کا واقعہ ہوا تو گویا افغان جہاد کے بعد پاکستان آرمی کی ایک دفعہ پھر لاٹری نکل آئی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملنے والی امریکی امداد کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا بلکہ دوغلا کھیل کھیلا۔
مغرب کو بتایا جاتا کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کررہے ہیں تو دوسری طرف طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کی حمایت بھی زور و شور سے جاری رکھی۔ نمونے کے طور پر کچھ دہشت گردوں کو امریکہ کے حوالے بھی کیا گیا جس سے بہرحال فوج کے بنیاد پرست جرنیلوں نے اختلاف کیا اور میڈیا میں جنرل مشرف کے خلاف باتیں بھی شائع ہونے لگی ۔ یاد رکھیں جب بھی میڈیا میں آرمی چیف کے خلاف پراپیگنڈہ شروع ہو جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ جرنیلوں کے درمیان اختلافات بہت بڑھ چکےہیں
ہمارے ایک باخبر دوست نے واقعہ سنایا کہ جب 2005 کے لگ بھگ جنرل مشرف امریکہ کا دورہ مکمل کرکے پاکستان آئے تو کور کمانڈرز کی میٹنگ میں اس دورے کی بریفنگ کی گئی اور جنرل مشرف کے اسسٹنٹ بریگیڈئر صاحب نے دورے کی بریفنگ دی اور بتایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں دوغلی پالیسی ختم کرنی چاہیے اور دہشت گردوں کے خلاف نہ صرف کاروائی کرنی چاہیے بلکہ ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات بھی قائم کیے جائیں۔ جس پر کورکمانڈرز کی اکثریت نے یک زبان ہوکر کہا کہ جنرل صاحب آپ امریکہ کے دو تین دورے کرکے ان کے حامی ہوگئے ہیں۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ افغانستان میں طالبان کتنے مضبوط ہوچکے ہیں اور امریکہ کمزور ہوچکا ہے اور جلد ہی وہ دن آنے والا ہے جب طالبان ایک بار پھر افغانستان میں اپنا پرچم لہرائیں گے۔ جس پر جنرل مشرف خاموش ہوگئے انہیں اندازہ ہوگیا کہ معاملات درست سمت میں نہیں جارہے۔
بہرحال جنرل مشرف نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ یاد رہے کہ 2002 میں نیپال میں سارک کانفرنس میں جنرل مشرف شریک ہوئے تھے اور انھوں نے اپنی تقریر کے بعد خیرسگالی کے طور پر بھارتی وزیراعظم واجپائی کی طرف مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو واجپائی نے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا تھا اور یہ منظر پوری دنیا ٹی وی پر د یکھ چکی تھی۔ لیکن جنرل مشرف کو چونکہ حالات کو سمجھ چکے تھے لہذا انھوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے بہت سے اقدامات اٹھائے۔ سیکرٹری لیول اور پھر وزرا خارجہ کی سطح پر بہت سے مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں جنرل مشرف نے لائن آف کنٹرول پر پانچ مقامات پر انٹری پوائنٹ بنائے تاکہ دونوں اطراف کے کشمیری نہ صرف اپنے عزیزو اقارب سے مل سکیں بلکہ دونوں اطراف تجارت بھی ہوسکے۔ اس مقصد کے لیے کشمیریوں کے لیے پاسپورٹ کی شرط بھی ختم ہوگئی تھی صرف ایک پرمٹ پر وہ سرحد کے آر پارآ یا جاسکتے تھے۔ اور سری نگر سے مال لے کر کچھ ٹرک پاکستانی کشمیر بھی آئے۔
اس دوران جنرل مشرف اور بھارتی قیادت کے درمیان ملاقات بھی ہوئی اور وہ دوستانہ معاہدے کے قریب پہنچ چکے جسے پاکستان آرمی کے جرنیلوں نے ہی ناکام بنایا ۔ جنرل مشرف کے کئی اقدامات کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا گیا اور چیف جسٹس افتخار چوہدری ان کے خلاف فیصلہ دینے ہی والے تھے کہ جنرل مشرف نے افتخار چوہدری کو جی ایچ کیو بلایا اور کچھ کہا جس پر افتخار چوہدری نے حامی نہ بھری اور اسی رات جنرل مشرف نے افتخار چوہدری کو معطل کردیا اور پھر افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک شروع ہو گئی جو کہ بنیادی طور پر جنرل مشرف کے خلاف تھی۔
بہت بعد میں جنرل مشرف کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری جو اس سارے عمل کا حصہ تھے نے سیفما میں صحافیوں سے آف دی ریکارڈ بہت سی باتیں شئیر کی تھیں جس میں یہ واضح تھا کہ گڑبڑ کہاں سے ہوئی تھی۔
میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ جب میڈیا میں آرمی چیف کے خلاف پراپیگنڈہ شروع ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جرنیلوں کے درمیان اختلافات بہت بڑھ چکے ہیں۔ اور ہمارے بڑے اور عظیم صحافی حامد میر، سید طلعت حسین، اور اسی قبیل کے دوسرے لوگ ہمیں یہ باور کرواتے تھے کہ میڈیا اب آزاد ہوچکا ہے اس لیے اب کوئی بھی تنقید سے مبرا نہیں۔۔۔۔۔ (جاری ہے)۔
نیا زمانہ کی ڈائری