شبانہ نسیم
ہمارے ہاں ایک کافی بڑی کلاس جس میں خواتین بھی شامل ہیں ان کا بیانیہ ہے کہ خواتین کے حقوق کیلئے احتجاج کرنے والے لوگ دراصل برہنگی اور فحاشی کو فروغ دینے اور فیملی سسٹم جیسی اقدار کو تباہ کرنے کی سازش رچ رہے ہیں جسے ہم کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
سنہ 1908میں خواتین کے عالمی دن کا آغاز ہوا ۔آج سال 2021میں دنیا کی تہذیب یافتہ قومیں ”وومن ان لیڈرشپ“ کے تھیم سے خواتین کا عالمی دن منائیں گی لیکن ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ملک میں ابھی تک یہ طے کرنا ہی مسئلہ بنا ہوا ہے کہ اس دن کا مقصد کیا ہے۔
سب سے پہلے توہمیں یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں برہنگی اورفحاشی کی تعریف کیا ہے اور وہ کونسی چیزیں ہیں جو اس کے دائرے سے باہر ہیں؟
چند دن پہلے میں نے ایک ویڈیو کلپ دیکھا جو شاید کچھ پرانا ہوگا اس میں ایک مذہبی سکالر ”جو غالباً لاہور کے ایک لاءکالج میں عربی مضمون کا لیکچر بھی دیا کرتے تھے “ خواتین مارچ میں احتجاج کے دوران کچھ خواتین کو اچھلتے ہوئے دیکھ کر (اب اس کلپ میں جو ہورہا تھا اسے رقص تو نہیں کہا جا سکتا) یہ کہہ رہے تھے کہ ”اس قسم کی“ عورتیں جو اپنے سینے دکھا رہی ہیں یہ فحاشی پھیلا رہی ہیں۔ ان کی بات سن کر میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ جناب یہ پاکستان ہے یہاں الیٹ کلاس کچھ ہی افراد پر مشتمل ہے، یہاں کی آبادی کا زیادہ حصہ مڈل، اپر مڈل یا لوئر مڈل کلاس ہے اور ان کلاسز کا پہناوا سب کے سامنے ہے ہمارے یہاں خواتین جسم کے اس حصے پر جسے مسٹر سکالر ایسے بیان کر رہے تھے جیسے وہ حصہ بالکل کپڑوں سے عاری ہو کم و بیش اوپر تلے تین کپڑے پہنتی ہیں ۔
لیکن مزے کی بات سکالر صاحب کو ان تین کپڑوں کی موجودگی میں بھی عورت کا سینہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ برقع چھوڑو عورت کو لوہے کے صندوقچے میں بھی بند کر دو اور” اس قسم کے لوگوں“ کواس لوہے کے لباس والی عورت کے سامنے کھڑا کر دو تو انھیں عورت کے چہرے کے نیچے گردن اور گردن کے نیچے سینہ ہی نظر آئے گا۔ ایسے لوگ کبھی عورت کے چہرے کے اوپر ہی موجود ذہن کو نہیں دیکھ پائیں گے۔ اب آپ یہاں سے ہی اندازہ کر لیں کہ جب تعلیمی اداروں میں پڑھانے اور ٹی وی پر بیٹھ کر باتیں کرنے والوں کی سوچ کا معیار یہ ہے تو گلی بازار کا حال کیا ہوگا؟
پاکستان میں آج بھی بہت سے مرد بازاوں میں خواتین کو چھوکر گزرتے ہیں، بہت سے مرد پاس سے گزرتے ہوئے اتنی غلیظ بات کر کے گزرتے ہیں کہ عورتوں کی بڑی تعداد نے کبھی ویسی بات سنی بھی نہیں ہوتی تو زبان سے دھرانا کتنا مشکل ہے، بہت سے مرد اتنے غلیظ اشارے کرتے ہیں جو کسی ذہنی صدمے سے کم نہیں ہوتے، ایسے غلیظ حادثات کی شکایت کس سے کی جائے؟ اس دکھ اور صدمے کی شدت کو خواتین بڑی اچھی طرح سے سمجھتی ہیں، اب ذرا غور کریں اگر یہ عمل کسی عورت کیلئے اتنے اذیت ناک ہوتے ہیں تو ریپ، عدم اعتماد، احساس کمتری، گھروں میں شوہروں ، باپ اور بھائیوں سے پٹنا، صنفی بنیاد پر کم اجرت جیسے عمل کتنی تکلیف کا باعث ہوتے ہیں۔
اور جہاں تک بات ہے کہ یہ مارچ فیملی سسٹم جیسی اقدار کو ختم کرنے کیلئے کیا جاتا ہے اور ایسی خواتین کرتی ہیں جو طلاق یافتہ ہیں وہ کسی مرد کو بندہ ہی نہیں سمجھتیں یہ روایتی تصورات خاصے پسماندہ ہوچکے ہیں ہمیں اب موجودہ دور میں ان سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ میں یہاں ایک حقیقی واقع شیئر کرنا چاہوں گی جو فیملی سسٹم سے جڑاہوا ہے ۔
یہ واقعہ ہمارے ایک کامریڈ کی فیملی میں پیش آیا جن کی بہن کو ان کے اپنے شوہر نے بھری عدالت کے سامنے قتل کردیا۔ ایک ایسی لڑکی جس نے ہمارے روایتی فیملی سسٹم کو نبھانے کیلئے شادی کے چوتھے دن سے لیکر سات سال تک شوہر سے جسمانی اور ذہنی مار کھائی تھی(ہمارے یہاں مرد عورتوں کو بستر میں کس طرح سے پیٹتے ہیں یہ بہت سے لوگوں کو پتہ ہی ہوگا جو نہ وہ کسی کو دکھا سکتی ہیں نہ ہی کسی کو بتا سکتی ہیں)۔ اس نوجوان لڑکی کی غلطی یہ تھی کہ جب اسے پڑنے والی ماراس کے بچوں کو پڑنے لگی تو وہ برداشت نہیں کر سکی اور اس نے مجبوراً زبان کھولی جس پر اس کے شوہر کی غیرت جاگ گئی۔ ماں باپ کی اجازت سے شوہر سے علیحدگی کا فیصلہ کرنے کو شوہر نے بدچلنی کا نام دیا اور بیوی کو اس کے والد سمیت جان سے مار دیا۔ ہماری سوسائٹی میں یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے ہرروز لڑکیاں مرتی ہیں ہرروز پٹتی ہیں ہرروز جنسی درندگی کا سامنا کرتی ہیں۔ بس اگر وہ چپ چاپ سب سہیں تو وہ اچھی عورتیں ہیں اگر وہ شکایت کریں تو گندی عورتیں ہیں۔
اسی طرح مختلف دفاتر میں مرد افسران یا ساتھیوں کی طرف سے خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی خاتون اپنے مرد افسر یا ساتھی کو اس کی آفر پر لفٹ نہ کرائے تو اس کے بارے میں خبریں پھیلائی جاتی ہیں کہ یہ خراب عورت ہے اس نے مجھے اکیلے میں یہ کہا وہ کہا جسے سننے والے خاصے مزے سے سنتے ہیں اور جب بھی اس عورت کو دیکھتے ہیں تو معنی خیز انداز میں آنکھیں گھمانا نہیں بھولتے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی عورت ہمت کرکے اس کے خلاف آواز اٹھانے کی جسارت کر ہی لے تو مشکل سے ہی کوئی ان کے ساتھ کھڑاہوتا ہے ۔
ہمارا بحیثیت قوم ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم میں سے بہت سے مرد اور خواتین شاید عورتوں کو بطور دوسرے درجے کی مخلوق ذہنی طور پر قبول کر چکے ہیں ۔ میں تو سوچ رہی ہوں ایک ایسے معاشرے میں جہاں ابھی تک عورت کو مکمل انسان ہی تسلیم نہیں کیا جاتا وہاں خواتین کا عالمی منانے کیلئے کسی حد تک ہی سہی لوگوں کا گھروں سے باہر نکلنا بڑے حوصلے کی بات ہے۔ دیکھیں آپ آزاد ہیں جو چاہیں ویسا سوچ سکتے ہیں لیکن خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے مارچ کرنے والے خواتین و حضرات کے بارے میں اپنی سوچ کا رخ تھوڑا درست فرمالیں کیونکہ وہ سڑکوں پر بغیر کپڑوں کے گھومنے یا ہم جنس پرستی کی اجازت نہیں مانگتے اور نہ ہی ان کا مقصد کسی کے خودساختہ نظریات سے ٹکرانا ہے۔
اس مارچ کا مقصد صرف ہر میدان زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو درپیش مسائل کو سامنے لانا ہے، تاکہ حکمران کلاس کو مڈل کلاس کے مسائل کا پتہ چل سکے اور اس حساب سے قانون سازی ہو، جس کی مدد سے لڑکیاں یا خواتین سڑکوں بازاروں میں اپنے نارمل کپڑوں میں مردوں کے ہاتھ لگانے کے ڈر سے بے خوف ہو کر گھوم پھر سکیں۔ شوہروں کی مارپیٹ اور جنسی حیوانگی کے خلاف بات کرکے انھیں آپے میں رہنے کا ہوش دلا سکیں۔ دفتروں میں نوکریاں بحال رہنے کے اعتماد سے افسروں اور ساتھیوں کو خوش رکھنے جیسے عمل کو فالتو کی بکواس کہہ کر آگے بڑھ سکیں۔ راہ چلتے اوباش آوارہ غلیظ باتیں کرنے والوں کی مرمت کرا سکیں۔ اور جب کہہ دیں”نہیں“ تو مرد کو اس نہیں کا مطلب سمجھا سکیں۔ اگر آپ کو یہ باتیں غیر اخلاقی لگی ہوں تو ااپنے نزدیک اخلاقی باتیں ضرور بتائیں!۔
♥
3 Comments