انسانی حقوق کی کئی تنظیموں اور سیاست دانوں نے اس حکومتی مسودہ قانون کی مخالفت کی ہے، جس کے تحت پاکستانی فوج کا تمسخر اڑانے، اسے بدنام کرنے یا اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے پر مختلف سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
اسلام آباد میں پاکستانی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے کل بدھ سات اپریل کو اس قانونی بل کی منظوری دے دی، جس کے تحت اگر کوئی شخص جان بوجھ کر پاکستان آرمی کے ارکان کا تمسخر اڑائے، انہیں بدنام کرے یا ان کی ساکھ کو نقصان پہنچائے، تو اسے کم از کم دو سال کی سزائے قید یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی سنائی جا سکتی ہیں۔پارلیمانی کمیٹی میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان نے اس بل کی مخالفت کی جبکہ حکمران پی ٹی آئی کے ارکان نے اس مسودے کی حمایت میں ووٹ دیا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف ملک دشمن عناصر کا پروپیگنڈا تیز ہو گیا ہے اور اس پروپیگنڈے کو روکنا بہت ضروری ہے کیونکہ فوج کو کمزور کرنے کا مطلب ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے۔
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان کا کہنا ہے کہ اس پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے قانون لانا ضروری ہے۔انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”کچھ عرصے سے پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف بہت گھناؤنی سازش کی جا رہی ہے اور ان کو ہر سطح پر بدنام کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی فوج کے افسران پر بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ایسا کرنے والے عناصر نا صرف فوج کو بدنام کر رہے ہیں بلکہ وہ پاکستان کے استحکام کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے، جو کسی بھی بیرونی جارحیت کو روک بھی سکتا ہے اور ملک کو متحد بھی رکھ سکتا ہے۔ اس لیے ہم یہ قانون لے کر آ رہے ہیں تاکہ جو کوئی بھی فوج کے خلاف سازش کرے، اسے سزا دلوائی جا سکے۔‘‘۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس مجوزہ بل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اس بل کی ہر سطح پر مخالفت کرے گا۔
کمیشن کے نائب چیئر پرسن اسد بٹ کے مطابق یہ بل نا صرف بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے بلکہ یہ آئین میں دی گئی آزادیوں کے بھی خلاف ہیں۔انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پاکستان کا آئین ہر شہری کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے ہر ادارے پر تنقید کر سکے۔ لیکن یہ بل آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے اور فوج کو ایک ‘مقدس گائے‘ بنانے کی کوشش ہے‘‘۔
اسد بٹ کا مزید کہنا تھا کہ جب عدالتی فیصلوں پر تنقید ہو سکتی ہے، وزیر اعظم اور وزراء پر تنقید ہو سکتی ہے، تو فوج پر تنقید کیوں نہیں ہو سکتی، ”میرا خیال ہے کہ اس بل کو سیاسی مخالفت کو کچلنے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا اور فوج کے ناقدین کو بھی نشانہ بنایا جائے گا، جو ملک میں جمہوریت کے لیے کوئی مثبت پیش رفت بالکل نہیں۔ یہ بل آئین سے متصادم ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتوں کو اس کی بھرپور مخالفت کرنا چاہیے ورنہ ایسی کوئی قانون سازی ملک کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوگی۔‘‘
ناقدین کا خیال ہے کہ اس مسودہ قانون کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرا لینا بہت مشکل ہو گا کیوں کہ سینیٹ میں حزب اختلاف کی اکثریت ہے اور اگر اپوزیشن نے متحد ہو کر اس بل کی مخالفت کی، تو بہت کم امکان ہے کہ یہ بل سینیٹ میں منظور ہو جائے۔ کئی سیاسی مبصرین کے مطابق اگر قومی اسمبلی میں بھی حزب اختلاف درست حکمت عملی اختیار کرے، تو وہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے اور یوں پارلیمانی ایوان زیریں میں بھی اس بل کی منظوری مشکل ہو سکتی ہے۔
مجوزہ ترمیم کے مسودے پر سوشل میڈیا میں دلچسپ تبصرے ہورہے ہیں۔ ایک صارف لکھتے ہیں کہ” فوج پیسہ کمانے کا کوئی ذریعہراستہ نہیں چھوڑتی۔ اب پیش خدمت ہے پانچ لاکھ دو بے عزتی کرو”۔
ایک صارف نے پنجابی میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “جیہڑا چودھری مراثیاں دیاں جگتاں تے وی پابندی لا دیوےسمجھو اوہ رہ گیا اے”۔
dw.com/urdu & Web desk