بھارت میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے تقریباً چار لاکھ مزید کیسز سامنے آئے ہیں۔بھارتی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے حکومتی پالیسیوں پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے ،”اس وقت کسی بھی حکومت کی سب سے پہلی ترجیح لوگوں کی جان بچانا ہونی چاہیے‘‘۔دوسری طرف مودی حکومت نے فیس بک اور ٹوئٹر کو حکم دیا ہے کہ کورونا سے متعلق تصاویر یا خبروں کو روکا جائے۔
بھارت میں کورونا وائرس کی وبا میں کمی کے بجائے اس میں دن بدن مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران انفیکشن کے تقریباً چار لاکھ مزید کیسز سامنے آئے ہیں۔ 30 اپریل جمعے کی صبح سرکاری حکام کی جانب سے جاری ہونے والے نے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک دن تین لاکھ 86 ہزار نئے متاثرین کا پتہ چلا ہے اور ایک دن میں اتنی بڑي تعداد میں متاثرین کا یہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔
بھارت میں گزشتہ نو روز سے مسلسل ہر روز تین لاکھ سے بھی زیادہ کیسز سامنے آتے رہے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید ساڑھے تین ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں اور اس طرح مجموعی طور پر اس وبا سے ہلاکتوں کی تعداد دو لاکھ نو ہزار کے قریب ہو گئی ہے۔
اس دوران کورونا وائرس کے شدید بحران کے پیش نظر مودی حکومت پر بھی اب کئی حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی بھی شروع ہو گئی ہے۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر مودی کے استعفے کے لیے ہیش ٹیگ شروع کیا گيا تھا اور بہت سے لوگ حکومت کے رویے پر شدید برہم نظر آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مشکل دور میں حکومت بے بس عوام کی مدد کرنے میں پوری طرح سے ناکام رہی ہے۔
بھارت میں متاثرین کی تعداد میں یہ اضافہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب ملک آکسیجن، ادویات، ہسپتالوں میں جگہ اور دیگر طبی ساز و سامان کی شدید قلت سے دو چار ہے۔ اس دوران امریکا سمیت دنیا کے متعدد ممالک کی جانب سے امدادی ساز و سامان کی رسد پہنچنی شروع ہو گئی ہے۔
لیکن ابھی زمینی سطح پر اس کے کوئی نتائج نہیں دکھے ہیں۔ ہسپتالوں میں بیڈ کے لیے لوگ اب بھی پریشان ہیں۔ آکسیجن کی کمی کی مارا ماری ہے اور اس سے متعلق ادویات کے لیے لوگ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
کورونا کی دوسری لہر میں بھی بھارت کے تقریباً تمام علاقے متاثر ہوتے جا رہے ہیں تاہم سب سے زیادہ اثر انہی ریاستوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے جو پہلی لہر میں بھی بری طرح متاثر ہوئی تھیں۔ اس میں ریاست مہاراشٹر، کرناٹک، گجرات، تمل ناڈو اتر پردیش اور دہلی جیسے شہر سر فہرست ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں اس وبا سے اب تک مجموعی طور پر ایک کروڑ 87 لاکھ افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ دو لاکھ نو ہزار کے قریب ہلاک ہو ئے ہیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ متاثرین اور ہلاک ہونے والوں کا مناسب ریکارڈ نہیں رکھا جا رہا ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مودی اور ان کی جماعت کے اہم رہنما مختلف ریاستوں میں بڑی بڑی الیکشن ریلیوں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ماہ سے جاری کمبھ کا میلہ بھی کورونا کی تباہ کاریوں کا ذمہ دار ہے۔
ایک معروف انگریزی اخبار کے ساتھ انٹرویو میں سونیا گاندھی نے مودی حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تو بہت پہلے ہی کورونا بحران پر قابو پانے کا دعوی کر دیا تھا، ”مرکزی حکومت نے وقت سے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ اس نے کورونا وائرس پر جیت حاصل کر لی ہے جبکہ پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے اس حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں اس کے لیے مزید تیاری کرنے کی سفارش کی تھی۔ تاہم حکومت نے اسے بھی نظر انداز کر دیا‘‘۔
واضح رہے کہ مودی نے چند ماہ قبل اپنی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک ایسے وقت جب مغربی دنیا اس وبا سے نمٹنے میں مشکلات اور پریشانیوں سے دو چار ہے،”بھارت نے اس مہلک وبا کو شکست دے دی ہے۔‘‘ ان کا دعوی تھا کہ بھارت کی ان کوششوں کے لیے پوری دنیا اس کی ستائش بھی کر رہی ہے۔
تاہم سونیا گاندھی نے حکومت کے ان جھوٹے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا، “فروری کے اوائل میں بھارتی اور بیرونی ممالک کے صحت کے ماہرین نے متنبہ کیا تھا کہ صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے لیکن حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اس دوران حکومت کورونا کے اثرات کے بارے میں غور و فکر کرنے کے بجائے ایسے پروگرام کرنے میں مصروف تھی جو اس وبا کے زبردست پھیلاؤ کا سبب بن رہے تھے“۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سابق وزير اعظم منموہن سنگھ نے اپنے تجربے کی بنیاد پر حال ہی میں ایک خط کے ذریعے جب حکومت کو اس وبا سے نمٹنے کی تجاویز پیش کیں تو حکومت نے اس پر توجہ دینے کے بجائے خود ان پر نکتہ چینی شروع کر دی،”اس دوران میں نے خود حکومت کو تقریباً دس مکتوب لکھے ہیں تاہم حکومت نے ان میں ایک پر بھی مثبت رد عمل ظاہر نہیں کیا‘‘۔
dw.com/urdu & web desk