لیاقت علی
بھارت کے معروف اسلامی عالم مولاناوحیدالدین خاں کی وفات پرسوشل میڈیا پردو طرح کےرد عمل نظرآئے ہیں۔ایک نکتہ نظروہ ہےجومذہب کی عقلی تعبیرپریقین نہیں رکھتا اورسمجھتا ہے کہ مذہب کو ریشنل بنایا ہی نہیں جاسکتا اورجو کوئی بھی ایساکرتا ہے وہ نہ صرف خود کو بلکہ مذہب کے پیروکاروں کو بھی دھوکہ دیتا ہے۔ان کے نزدیک مذہب اورریشنل ازم دو متضاد اورباہم متحارب مظاہرہیں جن کے مابین ترتیب اورہم آہنگی ممکن نہیں ہے۔مذہب بلاہچکچاہٹ مکمل اطاعت کا تقاضا کرتا ہے جب کہ عقل بغیر دلیل کسی چیز کوماننےاورتسلیم کرنے سے انکارکرتی ہے۔
دوسرا نکتہ نظروہ ہےجو سمجھتا ہے کہ مذہب کو عقلی بنیاد فراہم کی جاسکتی ہےاورمولانا وحیدالدین خان ان کے مطابق اسلام کو عقلی بنیادوں پر استوار کرتے رہے اوریہی وہ بات ہےجو انھیں روایت پرست مولویوں میں منفرد اورممتازبناتی ہے۔مولانا وحیدالدین خاں کے مداحین ان کی تعبیراسلام کو ّحقیقیٗ اسلام بتاکراس کی ترویج و اشاعت کےخواہش مند ہیں۔ان کے نزدیک مولانا وحید الدین خان نے اسلام کی جو تعبیرو تشریح کی ہے اگراس پرمسلمان عمل پیرا ہوں تو وہ بہت سی مشکلات اور مسائل جن کا آج انھیں سامنا ہے، سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔
مولانا وحیدالدین خاں کی تعیبراسلام کو کلاسیکل اسلامی تعلیمات کے تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے کی بجائے بھارت کے سیاسی و سماجی پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔وہاں مسلمان اسلامی نظام کے نفاذ کا پرچم بلند نہیں کر سکتے نہ ہی وہاں پروایکٹواسلام کی ترویج و اشاعت ممکن ہے،بھارت کے مسلمانوں کے لئے سر تن سے جدا کا نعرہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے۔ وہاں تو اسلام کی ایسی تعبیر ہی قابل قبول ہوسکتی ہے جو رواداری،برداشت اورصلح کل پر مبنی ہو۔
یہی وجہ ہےکہ وہاں جماعت اسلامی ہند جیسی بنیاد پرست سیاسی پارٹی بھی سیکولر ڈیموکریٹک فرنٹ تشکیل دیتی ہے جب کہ پاکستان میں وہی جماعت اسلامی مکمل اسلامیٗ نظام کی داعی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو بھارت کی دوسرے مذاہب سے تعاون، ہمدردی،پر امن بقائے باہمی،رواداری اوربرداشت کا درس دینا ہی ریشنل موقف ہے کیونکہ اس سے مختلف اور متحارب راہ ان کے لئے بربادی و تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔مولانا وحیدالدین خان کی فکر کو بھارت کی مجموعی سیاسی و سماجی صورت حال اور مسلمانوں کے اقلیت ہونے کے پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مولانا وحیدالدیں خان نے مولانا مودودی کے تصور اسلام پر جو تنقید تعبیر کی غلطی کے عنوان سے لکھی ہے وہ بھی بھارتی مسلمانوں کو ذہن میں رکھ کر لکھی گئی ہے۔ وہ اسلام کو سیاسی نظام تسلیم نہیں کرتے کیونکہ بھارت میں اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ قابل پذیرائی نہیں ہے۔اس کے برعکس پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اس لئے یہاں اسلام کی اس تعبیر کو بہت پذیرائی اورحمایت میسر آتی ہے جومکمل اسلامی نظامٗ کی داعی ہوتی ہے۔ انھوں نے توہین مذہب کے بارے میں جو کتاب لکھی اور اس میں انھوں نے جو موقف اختیار کیا وہ بھی بھارت اوران ممالک کے مسلمانوں کے لئے قابل قبول ہے جہاں وہ اقلیت میں ہیں۔مسلمان جن ممالک میں اکثریت میں ہیں وہاں ایسی کسی تعبیر کو وہ ماننے سے انکاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ان کی اس کتاب پر پابندی عائد ہے۔
مولانا وحیدالدیں خان اپنے نظریات کے حوالے سے پاکستان کے مذہبی حلقوں میں کبھی مقبول نہیں رہے کیونکہ وہ مذہب کے نام پر سیاست میں حصہ لینے کے مخالف تھے اور ان کی یہ بات پاکستان کے مذہبی عناصر کو کسی صورت قبول نہیں تھی ۔ان کی مذہبی فکر پاکستان میں اکثریتیٗ اسلام سے مطابقت نہیں رکھتی یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مولانا وحید الدین خاں کو مطعون کرنے والے ان کی تعریف و تائید کرنے والے تعداد میں زیادہ ہیں۔
♠