خالد احمد
پاکستان اور ہندوستان وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں کشیدگی کی کیفیت سے گزرنے کے بعد تعلقات کو “معمول پر لانے” کی طرف گامزن ہیں۔ نریندر مودی کے پاکستانی ہم منصب، عمران خان کی طرف سے امن کے متعدد اشارے اکارت گئے بلکہ ان کے نتیجے میں فروری 2019 میں “پلوامہ واقعہ” ہوا، جس نے قریب قریب ایک اور پاک بھارت جنگ شروع کر دی۔
پلوامہ کے دو سال بعد، 2021 میں برف پگھلنے کے آثار نمودار ہوئے ہیں جن کے بارے میں پاکستان میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے پس پشت امریکہ کی “مساعی” اور بھارت میں خلیجی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے “بڑے عرب سرمایہ کاروں” کارفرما ہیں جو اس خطے میں جنگ نہیں چاہتے۔ دوسری طرف ہندوستان میں کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ چین نے بھارت کو پاکستان کے ساتھ صلح کے لئے راضی کیا۔ اگر ہندوستان چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) میں شامل ہونے پر تیار ہوتا تو اسے بیجنگ سے کافی مراعات مل سکتی تھیں۔
ایک وقت تھا جب کچھ دانشمند ہندوستانی پاکستان کو مشورہ دیا کرتے تھے کہ اسے بھارت کے نقش قدم پر چلنا چاہیے جس نے 1962 کی بھارت چین جنگ کے باوجود چین سے تجارتی اور معاشی تعلقات خراب نہیں کئے چنانچہ پاکستان کو بھی
کشمیر کے باوجود ہندوستان کے ساتھ تجارت کرکے معاشی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس کے بعد ہندوستان میں عقاب صفت عناصر نمودار ہوئے جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرقیادت حکومت پر اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ تاہم اب معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کی پاکستان پالیسی میں کچھ تبدیلی آئی ہے جس کا نریندر مودی کے عمران خان کے نام خیر سگالی کے حالیہ پیغامات سے اندازہ ہوتا ہے۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی “پاکستان پالیسی” کے دونوں رخ بی جے پی کے دو بے حد ملتے جلتے “ناموں” سے منسوب کئے جاتے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ آنجہانی جسونت سنگھ (دسمبر 1998 تا جون 2002) جارحانہ مزاج رکھتے تھے جب کہ ان کے فوراً بعد آنے والے وزیر خارجہ یشونت سنہا (جولائی 2002 تا مئی 2004) ایک “حقیقت پسند” تھے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان نے بی جے پی کے ایک بانی رہنما (جسونت) سنگھ سے (یشونت) سنہا کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہندوستان کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ اپنی کتاب انڈیا ایٹ رسک میں افسوس ظاہر کرتے ہیں کہ “نام نہاد امن پسند” نہرو نے 1962 میں چین کا ٹھیک طرح سے مقابلہ نہیں کیا تھا اور ” سلامتی کو ترجیحات میں اس قدر نیچے رکھا گیا۔” کہ آزاد ہندوستان نے چپ چاپ “بھرپور اور جرات مندانہ قومی پالیسی کے پہلے جزو کے طور پر اسٹریٹجک سوچ کی مرکزیت ترک کردی۔” جسونت سنگھ سے پوچھنا چاہیے تھا کہ نہرو ٹھیک طرح سے نہیں لڑے، لیکن کیا اس سے ہندوستان کو تکلیف پہنچی ہے؟ پاکستان نے ہندوستان کا مقابلہ “ٹھیک طریقے سے” کیا تھا اور اسے بری طرح زک پہنچی ہے۔
پاکستان میں بہت سے بلند آہنگ رہنما تھے جنھوں نے ہندوستان سے جنگ کی بات کر کے پاکستانیوں کو ایسا اسٹریٹجک کلچر دیا جو جسونت سنگھ اپنی ریاست کے لئے چاہتے تھے۔ ایسے “عظیم رہنماؤں” ہی کے طفیل پاکستانی اب بھی اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ہندوستان کے ساتھ تجارت شروع نہیں کرسکتے۔ جسونت سنگھ کو اپنے بی جے پی کے ساتھی سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا کے موقف پر توجہ دینی چاہیے تھی— جنہوں نے درحقیقت 2003 میں پاکستان کو بتایا تھا کہ چین کی طرف سرحدی نظرثانی کی پالیسی ترک کرنے کے باعث ہندوستان کو تجارت کے ذریعہ معاشی طور پر فائدہ ہوا تھا۔ انہوں نے کہا تھا: “مجھے امید ہے کہ ہمارا مغربی پڑوسی [پاکستان] ایک نہ ایک دن اس سچائی پر ضرور غور کرے گا۔” (سنہا نے 2018 میں بی جے پی چھوڑ دی تھی)۔
غالباً نہرو نے چین سے پنجہ آزمائی نہ کرنے کا جو فیصلہ کیا وہ اس میں درست تھے۔ اور ان کے بعد آنے والے نسبتاً چھوٹے رہنما بھی یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ بھارت کو ہمیشہ کے لئے پاکستان کے ساتھ تنازعات میں الجھ کر اپنی معیشت کا بیڑہ غرق نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن نہرو شاید ان لوگوں کی نظر میں اتنے بڑے نہیں رہے جو ہندوستان کے لئے نہرو کے معاشی نمود کے نمونے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب 1990 کی دہائی کے اوائل میں ہندوستان نے نہرو ماڈل کو ترک کیا تو اس کی معیشت اس تیزی سے آگے بڑھی کہ آج تیس کروڑ افراد غربت کی لکیر سے اوپر اٹھ چکے ہیں۔
پاکستان میں، بیشتر مبصرین اور سیاست دانوں کو ہندوستان کے ساتھ معمول پر لانے کو مشروط رکھنا مناسب سمجھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان ایک متنازعہ علاقے کی حیثیت سے کشمیر کی حیثیت بحال کرے، جسے اس نے اگست سنہ 2019 میں باضابطہ طور پر منسوخ کر دیا تھا۔ لیکن تعلقات کو معمول پر لانے کا مسئلہ کشمیر سے کوئی تعلق نہیں جسے تبھی حل کیا جاسکتا ہے جب دونوں ریاستوں میں “معمول کے تعلقات” موجود ہوں۔
بی بی سی نے حال ہی میں لکھا: “ہندوستان اور چین 2020 میں خونی سرحدی تنازعہ میں ملوث تھے اور بھارت نے چین کی 220 ٹیک ایپس پر پابندی بھی عائد کر دی تھی لیکن اس کے باوجود چین نے امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بننے میں تامل نہیں کیا۔ 2020 میں ایشا کے ان دیرینہ اقتصادی اور اسٹریٹجک میں دو طرفہ تجارت کا حجم 77.7 بلین ڈالر رہا۔ کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اور ہندوستان بھی ایسی ہی کامیابی حاصل نہ کر سکیں بشرطیکہ وہ اپنے کمرے میں موجود اس ہاتھی سے بچ کر نکل سکیں جسے جموں و کشمیر کہتے ہیں۔
♥