بیرسٹر حمید باشانی
یہ فتح و شکست کا قصہ نہیں۔ محض ایک ورق الٹ رہا ہے۔
افغانستان کی طویل اورالمناک داستان کا ایک باب بند ہو نے کو ہے۔مگر داستان ابھی تمام نہیں ہوئی۔ یہ ہولناک کہانی ایک نیا موڑ لے رہی ہے۔ اس موڑ کے بعد اگلا منظرنامہ کیا ہوگا ؟ کوئی پورے وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔
اگلے منظر نامے ہیں کچھ امیدیں ہیں، کچھ خوش کن خواب ہیں۔ مگر اس کے پہلو بہ پہلو خوف کے گہرے سائےاور خدشات بھی ہیں، جن کی وجہ کچھ ماضی کے ہولناک تجربات ہیں۔لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ جشن بنانے کی تیاری میں ہیں۔فتح کا جشن یا شکست کی خوشی۔کچھ لوگوں کے لیے یہ افغانوں کی فتح کا جشن ہو گا، اور امریکیوں کی شکست پر خوشی کے شادیانے بجیں گے۔
افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کو کچھ لوگ قدرتی طور پر طالبان کی عظیم فتح قرار دے رہے ہیں۔ فتح و شکست کا کھیل افغانوں کے لیے نیا نہیں ہے۔ افغانستان کی تاریخ اس کھیل سے بھری ہے۔ ماضی میں دور تک افغان تاریخ کا نمایاں ترین کھیل یہی رہا ہے۔ کئی فتح کے جشن بنے ہیں۔ شکست پر لاتعداد ماتم ہوئے۔یہ افغانوں کی تاریخ کا ایک غالب رنگ ہے، اور اس تاریخ کا ورق ورق لہو سے بھرا ہے۔
ماضی میں بہت زیادہ پیچھے جائیں گے تو بات طویل ہو جائے گی۔ صرف چار دہائیاں پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔ یہی کوئی چالیس سال پہلے جب افغانوں کی جدید تاریخ کے اس پرآشوب دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس آغاز کا حساب کچھ لوگ چوبیس دسمبر1979سے شروع کرتے ہیں، جب سوویت افواج افغانستان میں اتریں۔ مگر حقیقت میں کہانی اس سے کئی پہلے شروع ہو چکی تھی۔
اس کہانی کا تعلق دنیا کی دوسری بادشاہتوں کی طرح اس وقت کےافغانستان کی بادشاہت کے خلاف خاندانی محلاتی سازشوں اورعوامی جہدوجہد کی مشترکہ اشکال سے تھا۔1973کے موسم گرما میں بلاخر سردار داود کی قیادت میں ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ مگر شاہی خاندان کے اس باغی کے پاس کوئی واضح روڈ میپ نہ تھا۔ ظاہر شاہ کے خلاف جنگ میں اس نے ایسے لوگ جمع کر لیے تھے، جو بھانت بھانت کی بولی بولتے تھےاور متضاد خیالات کے حامل تھے۔ چنانچہ اقتدار کی کشمکش شروع ہوئی۔ یہ کشمکش آگے چل کربلاخر نور محمد ترکئی کی فتح پر منتج ہوئی۔
ترکئی کی قیادت میں کمیونسٹ حکومت نے سوویت یونین سے مدد کی درخوست کی۔ اس درخواست کے جواب میں سوویت افواج نے افغانستان کی سرزمین پر قدم رکھا۔ اس قدم سے افغانستان کے اندر بر سر پیکارمتحارب گروہوں کی جنگ ایک عالمی جنگ کا روپ دھارن کر گئی۔ اس جنگ میں تین طاقت ور قوتوں کو گہری دلچسبی تھی۔ پہلی اور بڑی قوت امریکہ کی قیادت میں مغربی بلاک تھا، جسے اس قضیے میں سوویت یونین سے ویتنام کا بدلا لینے، اشتراکیت کی شکست، اور سرمایہ داری کی فتح کا ایک موقع نظر آیا۔
دوسری قوت جنرل ضیا الحق کی آمریت تھی، جسے اس صورت حال میں اپنے وجود کی بقا اوراقتدار پرفائز رہنے کی جوازیت کا نادر موقع نظر آیا۔ اور تیسری قوت پوری دنیا میں بکھرےاسلامی بنیاد پرست تھے، جو خدائی فوجدار کا کردار ادا کرنے کے لیے کسی کاز کی تلاش میں تھے۔ یہ تینوں قوتیں ایک دوسرے کی اعانت سےمیدان میں کود پڑیں۔
اس سے ایک نئے خون آشام کھیل کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان ایک عالمی تھیٹر بن گیا۔ اس عالمی تھیٹر میں وہ خون آشام ڈرامے سٹیج ہوئے، جن کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں تھی۔ یہ وہ دور تھا، جب سویت یونین داخلی سطح پر انتہائی گہری اور دور رس تبدیلیوں سے گزررہا تھا۔ گلاسنوسٹ اور پرسٹرائیکا جیسے نظریات پر کھلی بحث ہو رہی تھی۔ سماج تبدیلی کے تیز رفتار عمل سے گزر رہا تھا۔ اس عمل سے گزرنے کے دوران سوویت یونین کا راویتی طاقت ور ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر سماج پر اپنی گرفت کھو رہا تھا۔ مگر ٹوٹ پھوٹ سے پہلے سوویت یونین افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کر چکا تھا، اور جنیوا ایکارڈ پر دستخط کر چکا تھا۔
سوویت یونین کا ٹوٹنا ایک بہت بڑی حقیقت تھی، اور اس حقیقت سے انکار کسی کے لیے بھی ممکن نہ تھا۔ مگر اس ٹوٹ پھوٹ کا تعلق افغانستان سے جوڑنا بہت دور کی کوڑی لانے کے مترادف تھا۔ سوویت یونین کو ستر سال سے انتہائی پیچیدہ معاشی، سیاسی اور نظریاتی سوال درپیش تھے۔ ان سوالات کے بروقت اور درست جوابات فراہم کرنے میں ناکامی سوویت یونین کے ٹوٹنے کا سبب تھا۔ اس اتنے بڑے تاریخی واقعے کا سہرا جن لوگوں نے اپنے سر باندھنے کی کوشش کی وہ بے سود تھی۔
سوویت یونین ایک نظام کا نام تھا، جس نے نصف صدی تک ایک ناقابل تسخیر قوت کے طور پر دنیا میں طاقت کا توازن قائم کر کھا تھا۔ اس کی ٹوٹ پھوٹ کے اسباب اس کے اندر تھے، اوریہ کوئی خفیہ اسباب نہیں تھے بلکہ سب پرعیاں تھے۔ یہ سوویت نظام کی اپنی اندرونی کشمکش اور تضادات تھے، جس کے نتیجے میں یہ نظام اپنے سلسلہ عمل میں تحلیل ہو گیا۔ جہاں تک فتح و شکست کی بات ہے تو بحث ہی اس وقت غیر مطلق ہو گئی تھی، جب جنیوا یکارڈ پر فریقین نے دستخط کیے تھے، اور ماسکو نے اس معاہدے کے تحت اپنی فوجیں نکالنے کا اعلان کر دیا تھا۔
لیکن افغانستان کے اندر سوویت یونین کو شکست دینے کے دعویداروں کے ہاتھ میں جب اقتدار اور طاقت آئی تو جو طرز عمل انہوں نے اپنایا، اس کی کوئی وضاحت و توجیح ممکن نہ تھی۔ انہوں نے وہاں جس “نیک سماج” کے قیام اوردودھ اور شہد کی نہروں کے وعدے کیے تھے وہ تو ایفا نہ ہوئے۔ اس کے برعکس افغان عوام کے کمزور طبقات کو کئی خوفناک اور اذیت ناک واقعات سے گزرنا پڑا۔ لاٹھی اور گولی کی سرکار وجود میں آئی۔ انصاف کے نام پر طاقت اور ناانصافی کے کیسے کیسےمظاہرے ہوئے۔ عورتوں کو سر عام کوڑے مارے گئے۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا بے دردی سے قتل ہوا۔ افغانستان پر ظلم کا ایک نیا نظام مسلط ہوا، جو کئی بیرونی حملہ آوروں اور ان کے مسلط کردہ نظاموں سے زیادہ سخت گیر تھا۔
افغان تاریخ کا اگلا موڑ امریکہ کا برارہ راست حملہ اور تسلط تھا، جو مختلف اشکال مں دو دہائیوں تک جاری ہے۔ ان دو دہائیوں کے دوران کتنا خون خرابہ اور قتل غارت گری ہوئی اس کی ایک جھلک حال ہی میں امریکہ کی براون یونیورسٹی کے ایک ذیلی ادارے کی رپورٹ میں نظر آئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بیس برسوں کے دوران اس جنگ میں دولاکھ اکتالیس ہزار افغان اور امریکی شہری مارے گئے۔ اور اس قتل و غارت گری میں امریکہ کے بائیس کھرب ساٹھ ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ یہ وہ اخراجات ہیں، جو براہ راست جنگ پر خرچ ہوئے۔بلواسطہ اخراجات کا تخمینہ بھی پندرہ سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔بائیس سے تیس کھرب ڈالر کی خطیررقم سے دنیا میں کیا کیا جا سکتا ہے ؟ یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔
اس طویل جنگ کی جتنی بڑی قیمت جان و مال کی شکل میں امریکہ اور افغانیوں نے ادا کی وہ بہت بھاری ہے۔ اس جنگ میں کسی کی فتح وشکست یا ہار و جیت نہیں فقط بربادی ہے۔ اس بربادی کے سوا اگر کچھ ہے تو بس سبق ہے۔ یہ سبق سیکھنے کے لیے کھربوں ڈالرز کا خرچ اور لاکھوں انسان کا خون ضروری نہیں۔جو لوگ فتح کا جشن بنا نے کی تیاری کررہے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے اس کی بھاری قیمت ادا کی۔ فتح ہو یا شکست دونوں کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ انسان تاریخ کے ہر دور میں ایسا کرتا رہا ہے، مگر ہمارے دور میں یہ قیمت پہلے سے کئی زیادہ اور بھاری ہے۔
♥