بیرسٹر حمید باشانی
الفاظ اپنے اپنے ہیں، اندازجداگانہ ہے۔ مگر بیان ایک جیسا ہے۔ بیان یہ ہے کہ کشمیریوں کوحق خود ارادیت ملے بغیربھارت سے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔ یہ بات پاکستان کے تقریبا ہر حکمران نے اپنے دور میں کہی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے بھی یہ بات گزشتہ ہفتے ایک بار پھر اپنے انداز اور اپنے الفاظ میں دہرائی ہے۔ وزیر اعظم کا یہ بیان پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے باب میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے بیان پر ہونے والے ردعمل پر سامنے آیا تھا۔وزیر اعظم نے واضح کیا کہ کشمیر کے حق خوداردیت کے بغیر بھارت کےساتھ تعلقات نارمل نہیں ہو سکتے۔
عام طور پر جب کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا ذکر آتا ہے، تو اس کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر ضرور آتا ہے۔ پاکستان کا سرکاری موقف یہ رہاہے کہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کو اقوام متحدہ کی قرادادوں کے تحت تسلیم کیا گیا ہے۔ اور مسئلہ کشمیر کا حل ان قراردادوں پر عمل درامد سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں جہاں وسیع پیمانے پر ان قردادوں پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے، وہاں اتنے ہی بڑے پیمانے پران قراردادوں کے بارے میں غلط فہمیاں اور مغالطے بھی پائے جاتے ہیں۔ عام آدمی تو ایک طرف اچھے خاصے دانشور لوگوں کے لیے بھی یہ قرار دادیں پیچیدہ بھول بھلیاں کی طرح ہیں، جن سے کوئی واضح نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
قرار دادوں کی اس کہانی کا آغازپنڈت جواہر لال نہرو کے خط سے ہوتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے یہ خط کشمیر میں جاری لڑائی کے پس منظر میں یکم جنوری 1948 میں اقوام متحدہ کو لکھا۔ اس خط میں پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کے آرٹیکل 35 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھاکہ “اگر کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو، جس کے تسلسل کی وجہ سے سے عالمی امن اور سلامتی کو خطرہ لا حق ہو سکتا ہوتو کوئی بھی ممبر ملک یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔آج انڈیا اور پاکستان کے درمیان اسی طرح کی ایک صورت حال موجود ہے ۔ حملہ آور ریاست جموں و کشمیر میں، جو بھارت سے الحاق کر چکی ہے، پاکستان کی مدد سے کارروائیاں کر رہے ہیں۔ چنانچہ بھارتی حکومت سیکورٹی کو نسل سے درخواست کرتی ہے کہ وہ پاکستان سے فوری مطالبہ کرے کہ وہ بھارت کے خلاف اس جارحیت کو بند کرے“۔
پاکستان نے 15 جنوری کو سکیورٹی کونسل میں اس شکایت کا مفصل جواب دیا ۔ جواب میں پاکستان نے ہندوستان کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ اس نے کشمیر میں کسی قسم کی مداخلت کی ہے ۔ کشمیر کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئےانڈیا کے خلاف کئی سنگین اور سنجیدہ الزامات لگائے ۔ ہندوستان کی طرف سے دائر کی گئی اس درخواست پر لگائے گئے الزامات اور پاکستان کے جوابی الزامات پر کوئی پوزیشن اختیار کرنے کے بجائے صورت حال کو مزید خراب ہونے بچانے کے لیے سیکورٹی کونسل نے فوری طور پر ایک قرار داد پاس کی۔ ہندو ستان اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر کے باب میں یہ سکیورٹی کونسل کی پہلی قرارداد تھی۔ اسے قراردار نمبر 38 کہا جاتا ہے۔ یہ قرارداد 17 جنوری 1948 کو منظور کی گئی ۔ اس قراداد کے ذریعے پاکستان اور بھارت سے کہا گیا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر میں صورتحال کو مزید بگاڑنے سے اجتناب کریں۔ اور صورتحال میں بہتری کے لئے تمام ذرائع بروئے کار لائیں۔ اوردونوں سے کہا گیا کہ اگر صورتحال میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے، تو وہ اس سے فی الفور سکیورٹی کونسل کو آگاہ کریں۔
ہندوستان کے لیے یہ ایک مایوس کن خبر تھی۔ ایک شکایت کنندہ یا درخواست گزار کے طور پر ہندوستان یہ توقع رکھتا تھا کہ سیکورٹی کونسل پاکستان کو فی الفور مداخلت روکنے کا حکم دے گی۔ مگر اس توقع کے برعکس دونوں کو پر امن رہنے اور حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کی تلقین کی گئی۔
اس کے تین دن بعد یعنی بیس جنوری 1948کو اس سلسلے کی دوسری قرارداد یعنی قرارداد نمبر 39 پاس کی گئی۔ اس قراداد کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو پرامن طریقے سے سے حل کرنے میں مدد کرنے کی پیش کش کی گئی۔ اس مقصد کے لیے ایک تین رکنی کمیشن بنانے کا اعلان کیا گیا۔اس کمیشن کا ایک ایک ممبر پاکستان اور بھارت کو چننے کا اختیار دیا گیا۔ ان دونوں ممبران نےباہمی رضامندی سے تیسرے ممبر کا انتخاب کرنا تھا۔ اس کمیشن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ سکیورٹی کونسل کو مشترکہ معروضات پر مبنی خط لکھے، جس میں وہ یہ بتائے کہ خطے میں امن کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں ۔
کمیشن کا مینڈیٹ حقائق کی جانچ پڑتال کرنا اور سیکورٹی کونسل کی ہدایات پرعمل کرنا تھا۔ کمیشن نے بھارت کے یکم جنوری 1948 کے خط میں لگائے گئے الزمات کا جائزہ لینا تھا۔ اور اگر سیکیورٹی کونسل ہدایت کرے تو پاکستان کےپندرہ جنوری کے خط میں لگائے گئے الزامات کے بارے میں بھی حقائق جاننا تھا ۔ اپنے جواب میں پاکستان نے بر صغیر کی تقسیم کے وسیع تناظر میں کئی الزمات لگائے تھے، جن میں پانچ نمایاں اور سنگین الزامات تھے۔ پاکستان کا پہلا الزام یہ تھا کہ بھارت ہندوستان کی تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسراالزام یہ تھا کہ بھارت مشرقی پنجاب اور دلی میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہے۔ تیسرا بڑا الزام یہ تھا کہ بھارت نے ریاست جونا گڑھ پر ناجائز قبضہ کرلیا ہے۔ چوتھا الزام یہ تھا کہ کہ بھارت نے تشدد اور دھوکہ دہی کے ذریعے جموں کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کیا ہے۔ اور پانچواں بڑا الزام یہ تھا کہ بھارت نے پاکستان کو فوجی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔
بیس،20 جنوری1948 کی یہ قرارداد نمبر39 بیلجیم نے پیش کی تھی، جو اس وقت کونسل کا چئیرپرسن تھا۔ اس قرارداد پر حکومت برطانیہ کا بہت گہرا اثر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت برطانیہ نے فلپ نوال کی قیادت میں خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا وفد اقوام متحدہ میں بھیجاتھا۔ فلپ کامن ویلتھ ریلیشن کا برٹش وزیر تھا۔ اس کے پاس کامن ویلتھ ریلیشن کاتجربہ تھا۔اور یہ وفد بھیجنے کا مقصد صرف تنازعہ کشمیر کو حل کرنا تھا۔اس قرارداد پر بحث و مباحثے کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ جموں وکشمیر میں صورتحال حال فوری توجہ کی متقاضی ہے، لیکن کمیشن کے قیام کی قرارداد پاس ہونے کے باوجود اپریل 1948 تک کمیشن کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا۔
آخر کار جب اپریل میں کمیشن نے کام شروع کیا تو اس وقت تک کشمیر کے زمینی حقائق یکم جنوری کی نسبت بہت بدل چکے تھے۔ کمیشن کی تشکیل میں اس غیر معمولی تاخیر کے پیچھے کہیں ایک کہانیاں بیان کی جاتی ہیں ۔ لیکن اس میں سب سے بڑی بات وجہ کمیشن کے ممبران کی نامزدگی میں تاخیر تھی۔ خود پاکستان نے کمیشن کا ممبر اپریل 1948 کے آخر میں نامزد کیا۔ پاکستان کی طرف سے اس تاخیر کی دو ممکنہ وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ پاکستان اس مقدمے میں مدعی نہیں بلکہ مدعا علیہ تھا، اورتاخیر کی صورت میں اسے کشمیر میں زمینی حقائق تبدیل ہونے کی امید تھی۔بیس جنوری کی قرارداد پاس تو ہو گئی لیکن اس پرکسی قسم کا کوئی عمل نہیں ہوا۔ اوریہ قرارداد اس طرح کی دیگر درجنوں قرار دادوں کے انبار میں دفن ہو گئی۔ فریقین نے ایک دوسرے کو اس قرارداد پر عمل نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا، تاہم سیکورٹی کونسل اس پر خاموش رہی۔ اس سلسلے کی اگلی قرارداد مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی ایک اہم ترین قرار داد ہے، جس کا جائزہ کسی اگلی تحریرمیں لیا جائے گا۔
♣