منیر سامی
شاید آپ کی نظر سے یہ خبر نہ گزری ہو کہ امریکہ میں ایک پاکستانی نژا امریکی شہری ، عما دؔ زبیری کو مختلف الزامات کے تحت بارہ سال قید اور لاکھوں ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے خود کو ایک سیاسی یا علاقات ِ عامہ کے ایجنٹ کے طور پر رجسٹر کرائے بغیر ملینوں ڈالر کی خطیر فیس کے عوض بیرونی سیاست دانوں یا حکومتی کارندوں کو امریکی سیاست دانوں یا سرکاری افسرو ں تک رسائی فراہم کی۔ وہ اس سزا کے خلاف اپیل کر رہے ہیں۔
اس کہانی کی تفصیلات جاننے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی سیاست ا ور ریاستی کاروائیوں، پر اثر اندازی کے لیے دولت کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس کھیل میں ہر امریکی سیاسی جماعت اور سیاستدان شامل ہے۔ خواہ آپ نے ان کی نیک نامی کے چرچے سن رکھے ہوں۔ دراصل اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ امریکی سیاسی نظام پر اثر انداز ہونے کے لیئے نہ صرف سرمایہ داروں بلکہ ہر اہلِ اثر کو شریک ہونے کی اجازت ہے۔ امریکہ میں سیاسی اور انتخابی عمل کو دیانت دارانہ بنانے کے لیے عمل پرستوں نے بہت کوشش کی۔ لیکن ان کی کوششیں سپریم کورٹ تک پہنچنے کے بعد ناکام ہوگیئں۔ یوں سرمایہ داروں کو اور اہلِ ثروت کو کھل کھیلنے کی آزادی مل گئی۔
امریکی سیاست، ریاست، اور حکومتی اداروں کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے لیئے جو ادارے بنائے جاتے ہیں ، ان کو سیاسی عمل پرست کمیٹیاں یا پولیٹیکل ایکشن کمیٹی کہتے ہیں۔ جو عام طور پر PAC کے طور مشہور ہیں۔ اسی طرح علاقات عامہ کی ایجنسیاں بنتی ہیں جنہیں پی پی آر ایجنسی کہتے ہیں۔ اس کے لیے واضح قوانین ہیں اور ان پر ٹیکس کے معاملات میں سخت نگرانی ہوتی ہیں۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہری، عماد زبیری، اب سے کئی برس پہلے پاکستا ن سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے۔ انہوں نے اپنی تعلیم یہاں مکمل کی۔ اس کے بعد وہ سیاسی تعلقات پر اثر انداز ہونے کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اس کام کے قوانین کو توڑا۔ سیاست پر انداز ہونے کا امریکی طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی سیاسی جماعت یا اس کے امیدواروں کو خطیر چندہ فراہم کریں۔ لیکن ااس کے لیئے رقم کی تعداد محدود ہے اور ایسا ایک قانونی دائرہ کا ر میں رہ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی الزام لگتا رہتا ہے کہ یہ قوانین توڑے گئے اور سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے خفیہ طور پر یہ رقومات حاصل اور استعمال کیں۔ ایسے بہت سے الزامات سابق صدر ٹرمپ ؔ پر بھی لگے لیکن ابھی تک عدالتوں میں ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔
عماد زبیری ؔ نے بھی اس کام میں مہارت حاصل کی، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے امریکی ڈیموکریٹک پارٹی او ر ریپلیکن پارٹی دونوں ہی میں اثر اور رسوخ بنایا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے صدر ٹرمپ کے اہم نائبین، موجود صدر بائڈن کے نائبین، ہلیری کلنٹن کے اہلکاروں، ٹکساس کےے سینیٹر لنڈسے گراہم ؔ،اور دیگر سیاست دانوں تک سے تعلقات تھے۔ اور وہ مختلف بیرونی سیاست دانوں، سفیروں، اور سرکاری عہدیداروں کو امریکی عمایدین سے پرایئویٹ ملاقاتیں کرواتے تھے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انہوں نے سابق صدر اوباماؔ، اور موجودہ نائب صدر کملا ہیرسؔ ، کی انتخابی مہم میں بھی خطیر چندہ دیا تھا۔
بعض اطلاعات کے مطابق ، جن بیرونی سیاستدانوں یا سرکاری عہدیداروں کے لیے ، عماد زبیری نے کام کیا ان میں ، آصف زرداری، ترکی کے صدر اردوغان کے نمائندے، قطر کے عہدیدار، اور سعودی سفارت کا ر بھی شامل ہیں۔
عماد زبیری ؔ پر الزامات لگنے کے بعد امریکی سیاست میں رقوم کے استعمال کے قوانین ، اور انتخابات کی مالی مہمات کے قوانین کے بارے میں بحث پھر چل نکلی ہے۔ بعض امریکی صحافیوں کا کہنا ہے کہ سرکاری وکلا اور استغاثہ نے اس ضمن میںاب تک کھل کر نہیں کہا کہ عماد زبیری کی کوششوں میں کون سے سیاستدان براہِ راست شامل تھے۔اس کے علاوہ ان مقدمات میں سوائے عماد زبیری اور ایک جونیئر نائب کو سزا سنائی گئی ہے۔ امریکہ کے موقر جریدے ، وال اسٹریٹ جرنل نے تو یہ قیاس بھی کیا ہے کہ عدالت کی خفیہ دستاویز میں لگتا ہے کہ عماد زبیر ی کے شاید سی آئی اے سے بھی تعلقات تھے، اور انہیں اس ادارے نے بھی استعمال کیا ہوگا۔
شاید حقیقت کبھی بھی سامنے نہ آئے۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ عماد زبیریؔ اپنی سزا کے خلاف اپیل کریں گے۔ شاید ان اپیلوں میں اور باتیں بھی سامنے آئیں۔
آج کی تحریر کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ قاریئن کو امریکی سیاست کا وہ تاریک پہلو دکھایا جائے جو امریکی سیاست اور امریکی انتخابات میں دولت اور زر کا استعمال ہے۔ صرف گزشتہ انتخابات میں اربوں ڈالر خرچ ہوئے۔ اب صدر بائڈ ن کا کہنا ہے کہ وہ اس پر قابو کرنے کے لیئے قوانین بنانے کی کوشش کریں گے۔
ہم نے اس تحریر کے لیے مختلف جرائد سے استفادہ کیا ہے، جن میں اے پی، وال اسٹریٹ جرنل، لاس اینجیلیس ٹائمز، اور امریکی حکومتی ادارے شامل ہیں۔