گنگا میں تیرتی لاشیں کن کی ہیں

بہار اور اتر پردیش میں گنگا ندی میں پچھلے چند دنوں کے دوران درجنوں لاشیں بہتی ہوئی ملی ہیں۔ یہ لاشیں کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی بتائی جارہی ہیں، جنہیں جلانے کے بجائے ندیوں میں پھینک دیا گیا۔

ہار کے بکسر ضلع اور اس کے پڑوسی اتر پردیش کے غازی پور ضلع میں گزشتہ تین دنوں کے دوران گنگا ندی میں تقریباً ایک سو لاشیں بہتی ہوئی ملی ہیں حالانکہ اصل تعداد اس سے کافی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ کورونا سے ہلاک والوں کی ان مسخ شدہ لاشوں کے ملنے سے گنگا ندی کے کنارے آباد گاؤں میں خوف اور دہشت کا ماحول ہے۔

کورونا پر قابو پانے میں ناکام مرکزی حکومت کے سامنے یہ ایک نئی اور غیر متوقع صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ آبی امور کے مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شخاوت نے بہار اور اتر پردیش دونوں ریاستوں سے معاملے کی تفتیش کرنے کے لیے کہا ہے۔

شخاوت نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ”بہار کے بکسر میں گنگا ندی میں بہتی ہوئی لاشوں کا ملنا یقیناً افسوس ناک ہے۔یہ بلاشبہ تفتیش کا معاملہ ہے۔مودی حکومت گنگا کی پاکیزگی اور روانی کو برقرار رکھنے کے اپنے عہد پر قائم ہے۔ متعلقہ(بہار اور اتر پردیش) ریاستوں کو اس معاملے کا فوراً نوٹس لینا چاہیے۔” 

بہار کے بکسر ضلع کے پولیس سربراہ نیرج کمار نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہم نے گنگا سے 71 لاشیں نکالی ہیں۔ ہم نے ان کا پوسٹ مارٹم کرایا ہے اور ڈی این اے اور کووڈ کے نمونے بھی لیے ہیں۔ بقیہ معاملات سرکاری کووڈ پروٹوکول کے تحت کر دیے گئے ہیں۔

اتر پردیش میں وارانسی رینج کے انسپکٹر جنرل پولیس سویندر بھگت کا کہنا ہے کہ غازی پور میں حکام نے پچھلے دو دنوں کے دوران گنگا ندی سے کم از کم پچیس نامعلوم بہتی ہوئی لاشیں نکالی ہیں، ”ہم اصل تعداد فی الحال نہیں بتاسکتے لیکن کم از کم پچیس لاشیں تو نکالی گئی ہیں۔

بکسر ضلع کے پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ لاشیں اتر پردیش سے بہہ کر بہار میں آ گئی ہوں۔ بہار اور اتر پردیش کی پولیس کو ان معاملات کی تحقیقات کرنی چاہییں۔

دوسری طرف اتر پردیش کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس پرشانت کمار کہتے ہیں، ”چونکہ یہ لاشیں بہار میں ملی ہیں اس لیے اس کی تفتیش کرنا اور مزید کارروائی کرنا حکومت بہار کی ذمہ داری ہے۔ اتر پردیش کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔

دونوں ریاستوں میں گنگا کے کنارے رہنے والے مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ مقامی انتظامیہ انتہائی نااہل ہے اور سڑی ہوئی لاشوں سے تعفن کی شکایت کرنے کے باوجود انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ مقامی لوگوں کو خوف ہے کہ اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو ندی کے اطراف کے بہت سارے گاؤں کووڈ سے متاثر ہو جائیں گے۔

بی جے پی کے رکن پارلیمان جناردھن سنگھ سیگریوال کا کہنا ہے کہ یہ لاشیں کووڈ سے ہلاک ہونے والوں کی ہیں۔ انہیں ایمبولنس میں لا کر بہار اور اترپردیش کی سرحد کے نزدیک جے پربھا پل پر سے گنگا میں پھینکا جا رہا ہے،”اتر پردیش اور بہار دونوں ریاستوں کے ہی ایمبولنس کے ڈرائیور لاشوں کو لا کر یہاں پھینک رہے ہیں۔

لاشو ں کو آخری رسومات کے بغیر ہی ندی میں اس طرح پھینک دیے جانے سے لوگوں میں سخت ناراضگی ہے۔ شمشان گھاٹوں پر جگہ نہیں ملنے کی وجہ سے پہلے سے ہی لوگ سڑکوں کے کنارے اپنے رشتہ داروں کی آخری رسومات ادا کرنے پر مجبور ہیں لیکن اب انہیں اس طرح ٹھکانے لگادینے‘ کے واقعات سامنے آنے کے بعد لوگوں کی ناراضگی بڑھ گئی ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بہادر کمار نامی ایک صارف نے اترپردیش اور بہار کے وزیر اعلی کو ٹیگ کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے، ”لاشیں تیر نہیں رہی ہیں، یہ تو بھارت دیش کی کامیابی ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا۔ملک اور ریاست میں اقتدار پر بیٹھے ہوئے لوگوں، اگر آنکھوں میں پانی کی ایک بوند بھی باقی رہ گئی ہو تو اب بھی انسانیت کو مرنے سے بچا لو ورنہ ملک کے لوگ کبھی معاف نہیں کریں گے اور ایسا سبق سکھائیں گے کہ آنے والے بھی سبق لیں۔

سوکیش مشرا نے طنزیہ لہجے میں ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا،”بکسر میں گنگا میں جو لاشیں بہہ کر آئی ہیں، ان سے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب سماج وادی، کانگریس، آر جے ڈی (اپوزیشن) کے لوگ ہیں، جو نتیش، یوگی اور مودی کو بدنام کرنے کے لیے گنگا میں ڈو ب کر مرے ہیں۔ آپ کے خاندان کا کوئی نہیں ہے اس لیے بوجھ مت لیجئے۔

گنگا کے علاوہ اترپردیش میں حمیر پور علاقے میں جمنا ندی اور دیگر ندیوں میں بھی بہتی ہوئی لاشوں کے ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔

dw.com/urdu

Comments are closed.