پائندخان خروٹی
بلوچستان کے مایہ ناز پبلشر اور گوشہ ادب کے خالق مرحوم منصور بخاری سے اکثر اہل فکروقلم کے درمیان غیرضروری فاصلے، تنگ دامنی اور تنگ نظر گروہ بندی کے مسئلے پر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ منصور بخاری علمی وادبی حلقوں اور نشر واشاعت کے مراکز سے قریبی ربط وتعلق رکھتے تھے اور خاص طور پر صوبہ بلوچستان کی مختلف زبانوں کے ادیبوں، شاعروں اور میڈیا پرسنز سے ہر دور میں ان کے مراسم بہت خوشگوار رہے۔ ہم دونوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ کسی بھی زبان سے تعلق رکھنے والے اہل ادب وسیاست بنیادی طور پر آفاقیت پر یقین رکھتے ہیں اور کم از کم نظری طور پر سب اسکا اظہار بھی کرتے ہیں۔
آفاقیت کے نقطہ نظر سے تمام اہل فکروقلم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سامراجی قوتوں، مشتعل میلے لگانے والے کمپریڈور، ملک کے اندر موجود رجعت اور پسماندگی کی نمائندہ قوتوں کے خلاف ملکر سینہ سپر رہیں گے لیکن یہ بات ہمارے لیے تشویش اور افسوس کا باعث تھی اور ہے کہ اکثر ادیب اور شاعر حضرات سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی مختلف مسلکی خانوں میں بٹے ہوئے ہیں اور خرافات وتوہمات کے روایتی خولوں میں بند نظر آتے ہیں۔
مثال کے طور پر دیگر قومی زبانوں کی طرح پشتو کے کئی مارکسی دانشور اور ترقی پسند شاعر و مصنفین ہیں جن کی گرانقدر عملی جدوجہد اور معیاری آثار کے علاوہ باغ وبہار شخصیت و کردار کے بھی مالک ہیں۔ اس کے باوجود ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے اہل علم و ادب اور بالخصوص سرکاری نصاب مرتب کرنے والے واکداران اسکا اعتراف نہیں کرتے اور ان کی یاد منانے کیلئے سامنے نہیں آتے۔ عرب اور برصغير پاک وہند میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کالونیل اور نیوکالونیل نظام کی بڑھ چڑھ کر مخالفت کرنے والے اورینٹل سکول، پوسٹ کالونیل اسٹڈیز اور سبالٹرن اسٹڈیز پیش پیش ہیں۔
مذکورہ اداروں کے مورخین، محققین اور دانشوروں، نوآبادیاتی قوتوں کی نہ صرف مخالفت کرتے ہیں بلکہ اپنے ملکوں کی پسماندگی، غربت، فرسودہ روایات اور درپیش مشکلات کا تمام تر ذمہ دار بھی مغربی ممالک کو ٹھہراتے ہیں۔ انکا موقف ہے کہ مغربی تاریخ نویسوں نے ہماری تاریخ کو مسخ کیا۔ حالانکہ مسلم ممالک اور ہندوستان کی نوآبادیاتی دور سے پہلے اور بعد کی تاریخ سائنس دشمنی، اقتدار کیلئے جنگیں، صنفی امتیاز اور اپنے ہی عوام پر علم وشعور کے دروازے بند رکھنے سے بھری پڑی ہے۔ لیکن جب ان ممالک کو نوآبادیاتی نظام سے نجات ملی اور ملکوں کے انتظامات ان کے اپنے ہاتھوں میں آئے تو انکا اپنا کردار نوآبادیاتی حکمرانوں سے زیادہ استحصالی رہا۔ انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں محروم اقوام اور مظلوم طبقات پر مذہبی اور سرکاری خوف طاری کرکے انکا استحصال اُسی طرح جاری رکھا۔ چھوٹی اقوام کی مادری زبانوں اور فریڈم فائٹرز کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ اسکے علاوہ ظلم و استحصالی پر مبنی ذات پات کے نظام کو بھی برقرار رکھا۔
بورژوا حکمرانوں کے ان رویوں کے اثرات مڈل کلاس اور علمی و ادبی اکیڈمیوں کے ادیبوں اور پی ایچ ڈی سکالرز میں اب بھی بہت صاف نظر آتے ہیں۔ گویا حکمرانوں کی شکلیں ضرور بدلی لیکن طبقاتی بنیادوں پر طاقتور کے ہاتھوں کمزور کا استحصال آج بھی جاری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان کے انجمن ترقی پسند مصنفین نے شروعات میں مختلف قومی زبانوں کے ادیبوں اور شاعروں نے زمینی حقائق کے مطابق تعمیری کام ہی نہیں کیا اور بغور جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ترقی پسند تحریک کی زوال پذیری بآسانی تمام زبانوں میں منتقل ہوگئی۔
پاکستان میں آج بھی مقامی ادیبوں، شاعروں اور آرٹسٹوں کا یہ گلہ زبان زد عام ہے کہ علم و ادب کے مراکز پر پنجاب کے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کا کنٹرول ہے۔ پنجاب بالخصوص لاہور سینٹرک پاکستان کی دیگر اقوام کی مادری زبانوں کے ادب و تاریخ کو نہ تو کوئی اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی ان کے ادیبوں اور دانشوروں کو اپنے ساتھ بیرونی دوروں پر لے جاتے ہیں۔ تخت لاہور میں آج تک کسی پشتون، سندھی اور بلوچ وغیرہ کے کلاسیکل یا جدید اہل علم ودانش پر کسی قسم کی کوئی تقریب منعقد نہیں ہوئی جبکہ دیگر چھوٹے صوبوں کی زبانوں کے لوگ بھگت سنگھ، علامہ محمد اقبال، فیض احمد فیض، حبیب جالب، سجاد ظہیر، سی آر اسلم، لعل خان اور فہمیدہ ریاض وغیرہ کی نہ صرف یاد مناتے ہیں بلکہ خراجِ عقیدت پیش کرتے وقت پنجاب سے بھی دو قدم آگے چلے جاتے ہیں۔
دوسری جانب حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ادبی مراکز، اکیڈمیوں اور ثقافتی ادارے جو مختلف زبانوں کیلئے مختص ہیں اور باقاعدہ سالانہ حکومت کی جانب سے گرانٹ فراہم کی جاتی ہے۔ ان کے رویوں سے اپنے لوگ وفاقی اداروں سے زیادہ گلہ مند اور نالاں ہیں۔ اس طرح یہ تمام ادارے آپس میں مربوط ہونے کے بجائے علیحدہ علیحدہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں یہ ادارے مختلف زبانوں اور ادیبوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کی بجائے بڑھانے کا باعث ہیں۔ یہ ادارے بنیادی طور پر نرسری کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ علمی وادبی ادارے بھی چند مخصوص گروپوں کی اجارہ داری میں کئی عشروں تک رہتے ہیں اور نئے لکھنے والوں میں سے کسی خوش قسمت کیلئے قابلیت کی بجائے قبولیت پر شاذونادر ہی گنجائش نکلتی ہے۔
علاوہ ازیں ان تمام وفاقی اور صوبائی سطح پر موجود اداروں میں صنفی عدمِ مساوات نمایاں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ادارے عوام کی تربیت کرنے، ان کے رویوں پر اثرانداز ہونے اور یہاں تک کہ عوام کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ڈیجیٹل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں کوئی قوم یا ملک الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ سیاسی و معاشی استحکام کیلئے پائیدار امن بنیادی شرط بن چکی ہے اور دہشت ووحشت پر مبنی ذہنیت کا خاتمہ ہر ذی شعور شخص کا انسانی فریضہ ہے۔ لہٰذا مقامی سطح پر تخلیق ہونے والے ادب کو آفاقی اقدار کے جوہر سے روشناس کرانے کیلئے اور لوکل سوچ واپروچ کو گلوبل بنانے کی غرض سے ضروری ہے کہ براعظم یورپ، امریکہ یا دنیا کے دیگر خطوں میں ہونے والی فکری کاوشوں اور ادبی تخلیقات سے نہ صرف پوری آشنائی حاصل کیا جائے بلکہ ان سے بھرپور استفادہ بھی کیا جائے۔
ہمارے لوگوں کو خاص کر شعری وادبی سرگرمیوں میں مصروف نوجوانوں کو انٹرنیشنل سطح پر علم ودانش سیکھنے، ان کی ممتاز شخصیات کو جاننے اور نئی تحریکوں اور رحجانات سے آگاہی حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ادبی اور تحقیقی اداروں نے نہ تو بین الاقوامی شخصیات سے متعلق کسی تقریب کا اہتمام کیا اور نہ ہی عالمی سطح پر پیدا ہونے والے ادب اور ادبی تخلیقات و تحقیقات کو اپنی اپنی زبانوں میں اِکادُکا ترجموں کے علاوہ کوئی خاص انتظام ہے۔ ایک تجویز یہ ہوسکتی ہے کہ مختلف زبانوں کے یہ اکیڈمیاں اگر کسی بڑی عالمی شخصیت یا موضوع پر مشترکہ کوئی سیمینار کا انعقاد کرتے ہیں تو ایسی مشترکہ تقریبات کا اہتمام مختلف اکیڈمیوں اور مراکز کیلئے وسائل کے حوالے سے بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے اور مختلف زبانوں کے اہل فکروقلم کے درمیان روابط اور تعلقات کو بھی مستحکم بنا سکتے ہیں۔
اس طرح اسی سلسلہ کو آگے بڑھا کر دیگر ممالک کے عوام اور عوام کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے امکانات بھی روشن ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں بلوچستان میں بھی مختلف اقوام اور زبانوں کے شاعر و ادیب حضرات اور اکیڈمیاں ایک دوسرے سے دور ہوتے ہیں۔ یہ کہنا بےجاء نہ ہوگا کہ صوبے بھر میں واحد روزنامہ جنگ کا ادبی صفحہ ہے جس نے تمام اہل فکر وقلم ایک دوسرے کے قریب اور باخبر رکھا ہے۔ البتہ جب کوئٹہ میں موجود ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ کوئی بھی ظلم ہو تو بلوچ و پشتون شاعر وادیب اس پر آواز اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ دوسری جانب ہزارہ کمیونٹی کے ادیبوں اور شاعروں کی صورتحال بھی ان سے مختلف نہیں۔
بالکل اسی طرح اردو زبان کے شاعروادیب حضرات اول تو احساس برتری کے تحت دیگر قومی زبانوں اور لوگوں کو خاطر میں نہیں لاتے، دوئم حکمرانوں سے نسبتاً زیادہ قرابت رکھنے کے باعث کچھ فاصلے پر ہی خوش رہتے ہیں۔ یہ صورتحال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ اب کسی ایک زبان کے ادیب کی موت پر بھی دوسری زبانوں سے تعلق رکھنے والوں کی شرکت کا فقدان واضح نظر آتا ہے۔ سب کی تعزیتی ریفرنس، یادگاری مضامین اور برسی کی تقریبات الگ الگ ہوتی ہیں۔ ايک دفعہ سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے دیگر اقوام کے مشاہیرکی خدمات کے اعتراف میں برصغیر کی تحریک آزادی کے صف اول ہیرو کاکاجی صنوبرحسین مومند پر یادگاری مضامین لکھنے اور شائع کرنے کی کوشش کی جس کے اثرات چارسدہ تک محسوس کئے گئے۔
ضرور ت ہے کہ دیگر اکیڈمیاں اور ادبی مراکز بھی سماج کے نظر انداز گوشوں اور شخصیتوں کی نمائندگی کرنے میں بھرپور کردار ادا کریں۔ شاعر اور ادیب کبھی ریٹائر نہیں ہوتے یا شاعر وادیب عہدوں کے بہت شوقین ہوتے ہیں کے جیسے الزامات کا خاتمہ ینگ بلڈ کو مواقع دینے اور اپنا عہدہ قربان کرکے باآسانی دور کیا جا سکتا ہے ورنہ لہلہاتے باغات کو جنگل میں بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ بہرحال مجموعی طور پر اس امر کی ضرورت ہے کہ ترقی پسند ادبی تحریک کو آج کی زمینی حقائق اور معروضی حالات کے مطابق نئے سرے سے منظم کیا جائے، زیردست طبقہ کے ساتھ مضبوط رشتہ استوار کیا جائے، سائنسی سوچ واپروچ کو اختیار کیا جائے اور انٹرنیشنل پروگریسو قوتوں کا فعال حصہ بنے کی شعوری کاوشیں کی جائے تاکہ معاشی خودمختاری، خلقی حاکمیت اور اظہار کی آزادی کیلئے راہ ہموار ہو سکیں۔
♣