سب سے اہم مسئلہ جو اس اجلاس میں زیر بحث آیا وہ قضیہ فلسطین تھا۔ پہلے یہ ذکر ہوچکا ہے کہ اقوام متحدہ کے فلسطین کمیشن نے فلسطین کی تقسیم کی سفارش کی تھی۔ یہ رپورٹ 1947 کے اجلاس میں زیر بحث آئی اور اس پر اسمبلی کی اول کمیٹی میں بحث ہوئی۔ کمیٹی کے صدر آسٹریلیا کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایوٹ تھے۔ بحث کے دوران میں اول کمیٹی نے دو سب کمیٹیاں مقرر کیں۔ ایک کے سپرد یہ کام ہوا کہ تقسیم کی تفاصیل پر غور کرکے رپورٹ کرے اور دوسری کے ذمہ یہ فرض عائد کیا گیا کہ فلسطین کی وحدت برقرار رکھتے ہوئے عربوں اور صہیونیوں کے حقوق کی حفاظت کا منصوبہ تیار کرے۔ کولمبیا کے مندوب دوسری کمیٹی کے صدر منتخب کیے گئے۔ کچھ دن بعد وہ اس ذمہ داری سے دست کش ہوگئے اور ان کی جگہ اس سب کمیٹی نے مجھے صدر منتخب کیا۔ دونوں سب کمیٹیوں کی رپورٹ پر طویل بحث و تمحیض کے بعد اول کمیٹی نے تقسیم کے حق میں تجویز منظور کرلی۔ اس عرصے میں بہت کشمکش جاری رہی۔
جب پاکستان کی طرف سے میں نے پہلی بار تقریر شروع کی تو عرب نمائندگان کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ میری تقریر کا رخ کس طرف ہوگا۔ پاکستان ایک دو دن قبل ہی اقوام متحدہ کا رکن منتخب ہوا تھا۔ عرب ممالک کے مندوبین ہمیں خاطر ہی میں نہیں لاتے تھے اور ہماری طرف سے بالکل بے نیاز تھے۔
میری تقریر کا پہلا حصہ تو تاریخی اور واقعاتی تھا۔ جس کے بعض حصوں سے عرب مندوبین بھی ناواقف تھے جب میں نے تقسیم کے منصوبے کا تجزیہ شروع کیا تو اور اس کے ہر حصہ کی ناانصافی کی وضاحت کرنی شروع کی توعرب نمائندگان نے توجہ سے سننا شروع کیا۔ تقریر کے اختتام پر ان کے چہرے خوشی اور طمانیت سے چمک رہے تھے۔ اس کے بعد اس معاملہ میں عرب موقف کا دفاع زیادہ تر پاکستان کا فرض قرار دے دیا گیا۔
تقریریں تو عرب مندوبین کی طرف سےبہت ہوئیں اور بعض ان میں ٹھوس اور موثر دلائل سے آراستہ بھی تھیں لیکن عرب فصاحت کا اکثر حصہ جذباتی رنگ لیے ہوئے تھا اور وقت کا بہت سا حصہ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی بے سود کوشش میں صرف کیا کہ فلسطین میں جو یہودی آکر آباد ہورہے ہیں ان میں سے اکثر نسل ابراہیم ہی بلکہ روسی قبیلے بنام خازار سے ہیں جن کے آباو اجداد نے ایک وقت میں یہودی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ عرب موقف ہر پہلو سے اس قدر مضبو ط اور قرین انصاف تھا کہ اسے تقویت دینے کے لیے ایسے غیر متعلق دلائل کی طرف رجوع کرنا دراصل اسے کمزور کرنا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عرب مندوبین نے مرکزی ہدایت کے ماتحت اپنے دلائل اور تقریروں کو ترتیب نہیں دیا تھا۔ جو کچھ کسی کے ذہن میں آجاتا وہ اسے بیان کرنے سے رک نہ سکتا۔ بحث کے دوران ہی یہ ظاہر ہونا شروع گیا تھاکہ کمیٹی کا فیصلہ دلائل یاانصاف کی بنا پر نہیں ہوگا۔
کمیٹی میں نیوزی لینڈ کے نمائندے سر کارل بیرنڈسن تھے میری ایک تقرییر کے بعد کمیٹی سے نکلتے ہوئے مجھ سے فرمایا کہ اچھی تقریر تھی، صاف، واضح ، پر دلائل اور نہایت موثر۔ سر کارل چونکہ خود نہایت اچھے مقرر تھے مجھے ان کے اظہار تحسین سے خوشی ہوئی میں نے ان کا شکریہ ادا کرتےہوئے دریافت کیا “سرکارل پھر آپ کی رائے کس طرف ہوگی؟” وہ خوب ہنسے اور کہا”ظفر اللہ رائے بالکل اور معاملہ ہے”۔
جب بحث کا سلسلہ ختم ہو کر تقسیم کے منصوبے کے تفصیلی حصوں پر رائے زنی شروع ہوئی تو کمیٹی کے اجلاس کے دوران ہی ڈنمارک کے مندوب میرے پاس آئے اور فرمایا واقعات اور تمہارے دلائل سے صاف ظاہر ہے کہ تقسیم کا منصوبہ بالکل غیر منصفانہ ہے اور اسے عربوں کے حقوق پر نہایت مضر اثر پڑے گا۔ سکینڈے نیویا کے تمام ممالک کے نمائندوں کی یہی رائے ہے۔ معلوم ہوتا ہے تقسیم کی تجویز ضرور منظور ہوجائے گی کیونکہ امریکہ کی طرف سے ہم پر بہت زور ڈالا جارہا ہے میں تمھیں یہ بتلانے آیا ہوں کہ کمیٹی میں عام طور پر یہ احساس ہے کہ ہم امریکہ کے دباؤ کے ماتحت ایک بے انصافی کا فیصلہ کرنے والےہیں۔
اس احساس کا تمہیں فائدہ اٹھانا چاہیے تم نے اپنی تقریروں میں علاوہ تقسیم کی سرے سے مخالفت کرنے کے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اس کی بعض تجاویز ظاہرہ طور پر عرب حقوق کو غصب کرنی والی ہیں مثلا یافہ کا شہر جس کی 99 فیصد آبادی عرب ہے اسے اسرائیل میں شامل کیا گیا ہے اسی طرح اور بہت سی ایسی خلاف انصاف تجاویز ہیں ۔ اس وقت کمیٹی کی کاروائی بڑی جلدی میں ہورہی ہے اگر تم ان تجاویز کے متعلق ترامیم پیش کرتے جاو اور مختصر سی تقریر ہر ترمیم کی تائید میں کردو تو ہم سیکنڈے نیوی کے پانچوں ممالک کے نمائندے تمہاری تائید میں رائے دیں گے۔اور کمیٹی کی موجودہ فضا میں تمہاری تمام ترمیمیں منظور ہو جائیں گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر تقسیم کی ترمیم منظور ہو بھی گئی تو بہت سے امور میں عربوں کی اشک شوئی ہوجائے گی ۔
مجھےیہ تجویز پسند آئی اور میں یہ دیکھنے کے لیے ان کا اندازہ درست ہے یا نہیں ایک معمولی ترمیم پیش اور پر فوراً رائے شماری ہوئی اور ترمیم منظور ہوگئی اور اس السید جمال الحسینی نے جو فلسطینی وفد کے سربراہ تھے اور جن کی نشست عین میرے عقب میں تھی مجھ سے کہا ظفر اللہ یہ تم نے کیا کیا۔ میں نے ڈینش مندوب کی بات انہیں بتلائی انھوں نے حیران ہو کر دریافت کیا کہ اگر تمہاری تمام ترامیم منظور ہوگئیں تو تم تقسیم کے حق میں رائے دو گے؟
ظفر اللہ: ہر گز نہیں ہم پھر بھی پرزور مخالفت کریں گے لیکن اتنا تو ہوگا کہ تقسیم کا منصوبہ بہت کمزور ہوجائے گا اور اگر منظور ہوہی گیا تو اتنا برا نہیں ہوگا جتنا اس وقت ہے۔
السید جمال الحسینی:ہمارے لیے تو بڑی مشکل ہوگی
ظفراللہ خان: آپ عرب ریاستوں کے نمائندوں سے کہہ دیں کہ وہ بے شک ترمیم کے حق میں رائے نہ دیں غیر جانبدار رہیں۔
السید جمال الحسینی: مشکل تو پھر بھی حل نہیں ہوتی۔
ظفر اللہ خان: کیا مشکل ہے؟
السید جمال الحسینی: مشکل یہ ہے کہ اگر تقسیم ہمارے حقوق کو واضح طور پر غصب کرنے والی نہ ہوئی تو ہمارے لوگ اس کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے اور ہمیں سخت نقصان پہنچے گا۔ تم مہربانی کرو اور کوئی ترمیم پیش نہ کرو۔ میں خاموش ہوگیا۔
♣
تحدیث نعمت۔ صفحات 520،21،22