سندھ میں ڈاکو راج کی کہانی ۔ قسط دوم

حسن مجتبیٰ

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے انہی دنوں میں اسی کندھ کوٹ کے قریب ایک ڈاکو وزیر نامی تھا جس نے پولیس انسپکٹر غلام مصطفی شیخ کو ہلاک کیا تھا۔ اسی مقتول انسپکٹر کے بیٹے نثار احمد شیخ کو حکومت نے اے ایس آئی بھرتی کیا جو حالیہ دنوں تک ایس پی کی رینک تک پہنچا۔ امر جلیل نے اس مقتول انسپکٹر کی بہادری کا اپنے کالم میں بھی ذکر کیا تھا جو سندھی روزنامے “ھلال پاکستان” میں چھپا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے اپنی پارٹی کے وہ لوگ جن پر ڈاکوؤں یا چوروں کی سرپرستی کے الزامات تھے ان کو سندھ کرائمز کنٹرول ایکٹ ( جس کے تحت ہوم سیکرٹری کی اختیاری سے تین ماہ تک کسی بھی شخص کو نظربند رکھا جا سکتا تھا اور تین ماہ پورے ہونے کے بعد بھی بہ ضرورت اسکی نظربندی میں مزید تین ماہ کی توسیع کی جا سکتی تھی) اور ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت جیلوں میں رکھا ۔اس میں شاہنواز جونیجو اور اسکا بیٹا روشن جونیجو بھی شامل تھے۔ اگرچہ ان قوانین کا زیادہ تر استعمال سیاسی مخالفین پر ہوا کرتا تھا۔

بھٹو مخالفین کیخلاف انتقامی اقدامات میں ہوم سیکریٹری محمد خان جونیجو (بدین والا)، ایس پیز غلام شبیر کلیار، پنجل جونیجو یہانتک کہ بدنام زمانہ تھانیدار محمد ملوک چنڑ ( جو کسان کارکن بلو پنوہر سے لیکر بعد میں ٹنڈو بہاول کے قتلوں میں بھی فوج کیساتھ شریک تھا)، ہوم منسٹر و جیل خانہ جات عبدالوحید کٹپر، جام صادق علی، چیف منسٹرز ممتاز علی بھٹو اور پھر مصطفی جتوئی، ڈپٹی کمشنر امداد اللہ انڑ ملوث تھے۔ ان میں جامشورو انجنیئرنگ کالج کے لیکچرر اشوک کمار، عطا اللہ مینگل کا نوجوان بیٹا اسد اللہ مینگل (اشوک کمار اور اسد اللہ مینگل آجتک غائب ہیں) اور پیر پگاڑو کے چھ حروں کے قتل جیسے ہائی پروفائیل کیس بھی شامل ہیں۔ یہاں اس لئے بھٹو حکومت کی ان پالیسیوں کا ذکر بے محل نہیں کہ یہ سب امن امان کے نام پر ہورہا تھا۔

انہی دنوں میں سندھی زبان کے ایک سب سے بڑے افسانہ نگار اور زمیندار اپنے نام کی کیٹی (دریا کے بیچ جزیرہ نما زرخیز رقبہ) کیٹی نسیم کھرل کے مالک نسیم کھرل نے “مساوات” کے نام سے افسانہ لکھا تھا جس میں دو پولیس افسر ایک ناموں کی فہرست پر بحث کر رہے ہوتے ہیں کہ اوپر سے حکم پر کس کس طالب علم رہنما کو “مقابلے” میں چلایا جا سکتا ہے۔ پھر وہ جن ناموں کی ذاتوں پر غور کرتے ہیں وہ سب زورآور یا لڑاکا ذاتیں ہوتی ہیں اور آخر کار ایک ہندو نام پر متفق ہوتے ہیں کہ حساب برابر ہوا “ویسے بھی آجکل مساوات ہے” یہ کردار کہتے ہیں۔

نسیم کھرل کو بھی ڈیفنس آف پاکستان رولز میں گرفتار کیا گیا۔

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ دوسری طرف بھٹو کے حلیف طاقتور جاگیرداروں اور انکے مقامی قبائلی، چاہے سیاسی و انتخابی تنازعوں نے بھی ڈاکو فیکٹر کے حوالے سے امن امان کی صورتحال کو اور بھی مخدوش بنا کر رکھا۔ جن میں سب سے بڑی مثال مٹیاری کے جاموٹوں اور ہالا کے مخدوموں، شمالی سندھ میں شکارپور اور گھوٹکی سمیت مہر لنڈ تکراراسکی فقط دو بڑی مثالیں ہیں۔ ہالا میں ایک ڈی ایس پی کے بیٹے کا قتل جس کے پیچھے تب نوجوان امین فہیم کا نام لیا گیا تھا۔ اسی طرح میرپور ماتھیلو کے قریبی شہر جروار میں ایک ہندو نوجوان آتم اور غوث پور میں ایک ہندو نوجوان کے “پراسرار قتل” بھی آج تک “معمہ” بنے ہوئے ہیں۔ اور ان برسوں میں ہالا مٹیاری جیسے علاقوں میں نصیر فقیر نوح پوٹو، صاحب ڈنو ماچھی، اور بہت بعد محب شیدی اور اسکے ٹولوں کا پیدا ہونا بھی اسی جاموٹ مخدوم مخاصمت اور طاقت کی رسہ کشی کا شاخسانہ تھے۔ کوہستان محل کوہستان اور ٹھٹھہ میں ملک سکندر اور شیرزایوں کو سفید و سیاہ کا مالک بنادیا گیا۔

لیکن جہاں چند وڈیرے اور جاگیردار کچے اور پکے میں اور جنگلات سمیت سرویڈ ان سرویڈ سرکاری قبضوں کیٹیوں (کیٹی جتوئی، کیٹی کھوڑا، کیٹی ممتاز بھٹو، کیٹی کھرل، کیٹی پیر پاگارو، کیٹی بگھیو) شکار گاہوں (جہاں جنرل اور غیر ملکی شاہ و شیوخ شکار کرنے آتے ہیں ) پر مشتمل ہزاروں ایکڑ کے مالک ہوں اور لاکھوں بے زمین کسان اور بیروزگار نوجوان ہوں، اور اوپر سے جب تربیلا اور منگلا ڈیمز بنے انکے متاثرین کو بھی گڈو بیراج اور کوٹری بیراج میں ہزاروں ایکڑ زمین دی گئی اور متاثرین گوٹھ اور کچے کے لوگ ابتک اکثر دربدر اور بلا معاوضے ہوں، وہاں ہر نسل میں ڈاکو چور لٹیرے دھاڑیل تو مشرومز کی فصل کی طرح اگا کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں جہاں اوپر خدا اور نیچے فقط جنگلی سوئر یا وڈیرے ہیں۔

تو پس عزیزو! ذوالفقار علی بھٹو کا دور جنرل ضیا الحق کی مارشل لا کے نتیجے میں اختتام کو پہنچا۔مٹیاری کے جنگلات میں ایک گاؤں گہلیو نام کا بھی ہے جہاں کے چور پورے سندھ کیا ملک میں بدنام ہیں۔ گہلیو قبیلے کے نامی گرامی چوروں جام گہلیو وغیرہ نے ضیا دور میں لاہور میں اداکارہ شبنم کے گھر ڈاکہ ڈالا تھا۔

لیکن ضیا فوجی آمریت میں سندھ میں ڈاکو راج نہ فقط جاری رہا بلکہ اب اس میں شدت کیساتھ باقاعدہ جرائم میں سیاست شامل کرلی گئی۔ یہ کوئی سازشی تھیوری نہیں۔ بھٹو پھانسی کیا چڑھا پورے سندھ کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ ان تمام پیروں، سرداروں، میروں ،جاگیرداروں کو چھوٹ دے دی گئی جن جن نے بھی بھٹو کی پھانسی یا بعد میں ضیا کی حمایت کی۔ آپ نے دیکھا کہ دادو میں نبن لنڈ ( بدنام زمانہ پتھاریدار) جیسے لوگ بھی ضیا حمایت تحریک کے حمایتی ہوئے۔

ضیا دور کے شروع میں جو سب سے پہلے ہولناک واردات ہوئی وہ سندھ میں سندھی زبان کے ایک سب سے بڑے افسانہ نگار لیکن بڑے زمیندار کیٹی کیٹی کھرل کے مالک نسیم کھرل کا قتل تھا جس میں ایک نوجوان نامی رب رکھیو ناریجو قاتل بتایا گیا۔ رب رکھیو ناریجو کیلیے بتایا جاتا ہے کہ وہ یونیورسٹی گریجویٹ تھا اور کھرل نے اسکی نو سو ایکڑ آبائی زمین پر قبضہ کیا تھا جس پر ناریجو نوجوان ڈاکو بن گیا تھا۔نسیم کھرل کے قتل پر حیدرآباد نیشنل سینٹر میں تعزیتی اجلاس میں رسول بخش پلیجو نے کہا تھا “ بلاشک نسیم کھرل ایک عظیم کہانی کار تھا۔ ایک بہت بڑا ادیب۔ لیکن وہ ایک وڈیرہ تھا اور اپنی طبقاتی موت مرا”۔

نسیم کھرل کے قتل کے بعد خیرپور میرس سمیت شمالی سندھ میں ناریجو کھرل خونی تکرار بھڑک اٹھا۔ بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ناریجوں پر ایک طرح کا مارشل لا کے اندر ایک اور مارشل لا شروع ہوا جو مارشل لا ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہا۔ پولیس نے نسیم کھرل قتل کیس میں خیرپور میرس، لاڑکانہ، سکھر اضلاع میں کئی ناریجو گوٹھوں پر آپریشن کیا۔ کچے کے کئی ناریجو نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا لئے اور رب رکھیو سے نظرو ناریجو اور ابتک ناریجو ڈاکوئوں نے سندھ کی دھرتی تانبہ بناکر رکھی ہے۔ اور اگرچہ کھرل ناریجو تکرار ختم ہو بھی چکا ناریجو ہوں کہ ان کے مخالفین دونوں نے ایک دوسرے عام لوگوں پر بھی دھرتی تانبہ بنا کر رکھی ہوئی ہے۔ رب رکھیو ناریجو بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں بدین ضلع میں گرفتار ہو کر جعلی پولیس مقابلے میں ماراگیا۔ اب انکے اور قبیلوں سے تنازعے ہیں ۔ ناریجوں کی ایک اور نسل کے ڈاکو ہیں۔ ناریجو اکثر پیپلزپارٹی کے ووٹر ہیں اور بینظیر سمیت بھٹوؤں کے ہاری اور کمدار بھی رہتے آئے ہیں۔ عزت کی وانڈھ لاڑکانہ ہو کہ گلو سیال خیرپور میرس ناریجو ،گمبٹ کا کچہ ناریجو قبیلے پر ایک مارشل لا ہی رہا تھا۔

ناریجو ں پر مارشل لا میں اسوقت کچھ کمی آئی تھی جب خیرپور میرس کا ایس ایس پی پولیس میجر امتیاز بن کر آیا تھا اور اس نے ناریجو قبیلے کے لوگوں کی بات سنی تھی اور اسکے پرایئویٹ باڈی گارڈز بھی ناریجو نوجوان تھے۔ وہ میجر امتیاز جو بعد میں بینظیر کا چیف سیکیورٹی آفیسر بنا اور اسکے قتل کے وقت بھی اسکی کروزر میں آگے ڈرائیور والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔

جام صادق علی کے زمانے میں جب کن مغویوں کو ڈاکوؤں کے چنگل سے رہا کروانے ایس ایس پی میجر امتیاز نے گلو سیال تھانے کی حد میں وڈیرے نعیم کھرل کے زمین پر چھاپہ مارا تو کھڈے لائین کردیا گیا۔ اس سابق میجر پولیس ایس ایس پی کیخلاف اسوقت کے شمالی سندھ پر تعینات فوج کی انٹیلیجنس کے کرنل اسحاق نے رپورٹ میں لکھا کہ میجر امتیاز ناریجو ڈاکوؤں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ حلانکہ خیرپور میرس کے عام لوگ آج بھی میجر امتیاز کے دور میں امن امان کی صورتحال کو بہتر سمجھتے ہیں۔ بینظیر کے دوسرے دور حکومت میں مقتول کہانی کار نسیم کھرل کے بھائی رشید کھرل کو سندھ کا ہوم سیکرٹری بنایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ کھرل نے اس عہدے کو پہنچنے کیلے لاکھوں روپوں کی رشوت دی تھی۔ اسکا بھائی نعیم کھرل اب سندھ میں حکمران پارٹی کا ایم پی اے ہے۔

جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت میں سندھ کو کرنلوں کے حوالے کردیا گیا جو آج بھی اصل میں کرنلوں کے حوالے ہے۔ ایک نہ دوسرے دور میں کراچی میں کرنل امتیاز بلا ( جو بعد میں بریگیڈیئر بنا)، لوئر سندھ یا جنوبی سندھ میں کرنل ایوب، اور شمالی یا اپر سندھ میں کرنل اسحاق۔ انکے نیچے کوئی میجر عباس کوئی میجر علی، کوئی میجر الیاس یا ایسے جعلی اصلی ناموں سے۔

(جاری ہے)

ا

Comments are closed.