بیرسٹر حمید باشانی
ہم ڈیجیٹل دور کے لوگ ہیں۔ڈیجیٹل دورکو انفارمیشن دور بھی کہا جاتا ہے۔ڈیجیٹل دورپوری دنیا کے لیے کوئی نیا دور نہیں ہے۔ بنیادی طور پر ستر کی دہائی سے شروع ہوتا ہے۔ اس کا آغاز دنیا کے کچھ ممالک میں ” پرسنل کمپیوٹر” متعارف کروانے سے ہوا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرسنل کمپیوٹر کے علاوہ ٹیکنالوجی کےدیگرجدید ذرائع متعارف ہوتے رہے ، جن کے ذریعے معلومات کو آسانی اور تیز رفتاری سے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ نوے کی دہائی میں انٹرنیٹ عام ہو جانے سے اس میدان میں انقلاب آگیا۔ پھرہماری اس صدی کے پہلے عشرے میں سمارٹ فون آیا، جس نے اس میدان میں انقلاب برپا کر دیا اور لوگ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی جیب میں اور ہتھیلی پر لے کر گھومنے لگے۔
عالمی مالیاتی بحران کے بعد عالمی سطح پر” ڈیٹا ٹرانسفر“ یا اعداد و شماراور معلومات کی منتقلی کا ایک دھماکہ خیزکام شروع ہوا۔ یہ کام اتنی برق رفتاری سےہوا کہ دوسرے ممالک سے اعداد و شمار کا بہاؤ سال 2008 سے لے کر 2020 تک تقریبا ایک سو بارہ گنا بڑھ گیا۔
آج یہ عالم ہے کہ عالمی معیشت ڈیٹا،اعداد و شماراور معلومات کی مشین بن چکی ہے۔ وہ معلومات کواستعمال کرتی ہے ، اس پر عملدرآمد کرتی ہے اور اس کو کہیں زیادہ مقدار میں پیدا بھی کرتی ہے۔ ڈیٹا میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز نے کچھ معاملات میں “گڈز اینڈ سروسز” یعنی سامان اور خدمات کی روایتی انداز کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ ڈی وی ڈی کے ذریعے فروخت ہونے والی فلمیں ، اب ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر میسر ہیں ۔خبریں ، کتابیں اور تحقیقی مقالے آن لائن استعمال ہوتے ہیں۔ کاروں میں صرف انجن ہی نہیں پیچیدہ الیکٹرانکس اور سافٹ ویئر بھی موجود ہیں، جو بڑے پیمانے پر ڈیٹا حاصل کرتے ہیں۔سامان میں تجارت بھی ڈیجیٹل اآلات اور پروگراموں کے ساتھ ہوتی ہے، جو شپنگ کنٹینرز کو ٹریک کرتے ہیں ،ڈیٹا تیار کرتے ہیں ،اور کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں۔ اور اب کوویڈ 19 نے کاروباروں کی ڈیجیٹل دنیا میں منتقل ہونے کے عمل کو تیز کیا ہے ، اور تجارت کے علاوہ بھی زندگی کی تقریبا تمام سرگرمیوں کوہی سائبر دنیا میں دھکیل دیا ہے۔
آنے والے وقتوں میں ڈیجیٹل تجارت اور عالمی سطع پر ڈیٹا کا بہاؤ سست ہونے کے بجائے تیز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ سال 2018میں دنیا میں تقریبا 330ملین افراد نے دوسرے ممالک سے آن لائن خریداری کی ۔ اس طرح کی ہر ایک خریدداری میں اعداد و شمار کی سرحد پار اور سمندر پار ترسیل شامل ہے ۔ ان سرگرمیوں سے دنیا میں ای کامرس25.6 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ حالانکہ ابھی تک دنیا کا صرف 60 فیصد حصہ آن لائن ہے۔ذرا تصور کریں کہ ترقی پذیر دنیا کی تیزی سے پھیلتی ہوئی آبادیوں میں جب تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی پھیلتی ہے تو ، کتنا ڈیٹا بڑھتا جائے گا ۔ 5 جی وائرلیس ٹکنالوجی بجلی کی رفتار سے زیادہ غیر معمولی اعداد و شمار کو منتقل کرنے کی اجازت دیتی ہے ، اورانٹرنیٹ کے ذریعے مشین سے مشین مواصلات کے عمل کو ڈرامائی طور پر بڑھاتی ہے۔
ستر کی دہائی میں پرسنل کمپیوٹر کے استعمال کے آغاز سے لے کر اب تک تقریبا نصف صدی کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن یہ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کچھ ممالک ابھی تک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی برکات سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ پرانے اور فرسودہ نظام سے جڑے ہیں۔ موجودہ بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کا فریم ورک 75 سال قبل ایک بہت ہی مختلف وقت میں تیار کیا گیا تھا۔ مانا کہ بعض ملکوں میں اس نے خوشحالی اور سلامتی کو ترقی دی ۔ لاکھوں افراد کو غربت سے نکالنے میں مدد کی ، اور ایک وسیع تر معاشی نظام کے تحت جمہوریت ، تجارت اور انفرادی حقوق کی حوصلہ افزائی کی۔ لیکن یہ نظام سماج میں عدم مساوت اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی نا ہمواریاں ختم کرنے میں ناکام رہا۔ یہ نظام آج عالمی تجارت و سیاست کی حقیقتتوں کے تناظر میں کافی نہیں ہے۔
ہمارے ہاں دور دراز کے عوام ابھی تک جدید ٹیکنالوجی سے دور ہیں۔ ٘مثال کے طور پر آزاد کشمیر کا علاقہ جہاں کی بہت بڑی آبادی سمندر پار رہتی ہے،اور اس وجہ سے یہاں کی آبادی کے پاس دنیا سے جڑنے، روزگار حاصل کرنے یا تجارت کرنے کے موقع زیادہ ہیں، مگر یہاں تیز رفتار انٹرنیٹ اور قابل بھروسہ بجلی کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے وہ ان سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ اس دوڑ میں اتنا پیچھے رہ جانے کا اصل سبب وسائل کی کمی نہیں تھی، جو عموما تیسری دنیا کے ناکام اور ناہل حکمرانوں کا جانا پہچانا بہانہ رہا ہے، بلکہ اس کے پیچھے کھلے ذہن سے جدید دیجیٹل پالیسی اپنانے میں ناکامی ہے۔
اس کی وجہ صرف حکمران طبقات کی نااہلی ہی نہیں، بلکہ سماج میں مروجہ طاقت ور مائینڈ سیٹ بھی ہے، جو ہر قسم کی جدت اور تبدیلی سے خوف زدہ ہے ، اور اس کے راستے میں رکاوٹ رہا ہے۔ یہ مائینڈ سیٹ رکھنے والے سماج تاریخ کے نازک ترین لمحات سے گزر رہےہیں ، کیوں کہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے لیے تیار نہ ہونے کی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں ایک بار پھر ان کے پیچھے رہ جانے کے امکانات ہیں، جیسے آج ستر سال پیچھے ہیں، یہ فرق سو سال تک بڑھ جائے گا۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی بذات خود ترقی اور کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لیے ایک خاص قسم کے سماجی و معاشی ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان ممالک میں گہری عدم مساوات ہے۔ ٹیکنالوجی خود کار طریقے سے اس عدم مساوات کو ختم نہیں کرتی، بلکہ اس کے برعکس اس کو بڑھاوا دیکر مزید گہرا کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ارباب اختیار کو شعوری کوشش اور ٹھوس منصوبہ بندی کے ذریعے معاشرے کے کم خوش قسمت طبقات کو ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے مواقع مہیا کرنے پڑتے ہیں۔ ایک روشن مستقبل کا مشترکہ ویثرن دینا پڑتا ہے۔مساوات پر مبنی نیا نظام لانا پڑتا ہے، جس میں سماج کے کمزور اور کم خوش قسمت طبقات کو شامل کیا جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے عوام کی زندگی میں تیز رفتار تبدیلی آتی ہے۔ اس لیے عوام کو دیجیٹل مستقبل کا مرکز بنانا ضروری ہے۔ سماجی و معاشی تبدیلی میں عوام کو مرکز بنائے بغیر تبدیلی لانے سے سماجی بے چینی لازم ہے۔ اس کے لیے ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے ، جن سے عام تبدیلی سے فائدہ ہواور ان کو تیکنالوجی کے پوشیدہ نقصانات سے بچایا جا سکے۔
ٹیکنالوجی ہر کسی کی ترقی کی ایک قوت ہے، اس لیے اس کا ہر کسی تک پہنچناضروری ہے۔ عوام کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ ان کی بات سنی جا رہی ہے۔ ان کی تعلیم، تربیت اور مہارت میں اضافے کے لیے اقدامات ہو رہے ہیں۔ ان پر اعتماد کیا جا رہا ہے، اور اس عتماد کی بنیاد پر ان کو اس قابل سمجھا جا رہا ہے کہ وہ جی فائیو جیسے تیز رفتار ٹیکنالوجی کے زریعے آزادی سے پوری دنیا سے جڑ سکتے ہیں۔ ان سے مکالمہ کر سکتے ہیں۔ تبادلہ خیالات کر سکتے ہیں۔ اپنی خدمات دے سکتے ہیں۔تجارت کر سکتے ہیں۔ ذاتی اور سماجی رابطے بنا سکتے ہیں۔ یہ آزادی اور سہولت دینے سے ان کی محب وطنی پر فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی اور اس عمل سے کسی ملک کی سلامتی اور سالمیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
♥