زبیر حسین
سائنس کے مختلف میدانوں سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ہماری زمین پر پائے جانے والے تمام جانداروں کا جد امجد ایک ہی ہے۔ یہ جد امجد یک خلوی تھا اور آج سے کوئی چار ارب سال پہلے وجود میں آیا۔ اس یک خلوی جاندار سے انواع و اقسام کے کروڑوں جاندار کیسے وجود میں آ گئے؟ ارتقا کی تھیوری یا نظریہ اس سوال کا جواب دیتا ہے۔ کچھ لوگ نظریہ ارتقا کا مطالعہ کئے بغیر فرض کر لیتے ہیں کہ اس نظریے کے مطابق انسان پہلے بندر تھا۔ دوسرے لفظوں میں بندر ارتقا کرکے انسان بن گئے۔ پھر وہ سوال کرتے ہیں کہ بندر کیوں موجود ہیں؟ وہ سب ارتقا کرکے انسان کیوں نہیں بن گئے؟ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ نظریہ ارتقا نے بندروں کے انسان بننے کا کوئی دعوی نہیں کیا۔ البتہ یہ ثابت کیا ہے کہ تمام ذی حیات کا منبع یا جد امجد ایک تھا۔
جاندار جنسی عمل کے ذریعے بچے پیدا کرتے ہیں اور بچوں میں اپنے جین یا خصوصیات منتقل کر دیتے ہیں۔ ان خصوصیات کی منتقلی کی دوران ان میں تھوڑی بہت تبدیلیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں سال کے دوران نسل در نسل ہونے والی ان تبدیلیوں کے نتیجے میں آخرکار ایک مختلف نوع کا جانور وجود میں آ جاتا ہے۔ یہ تبدیلیاں ڈی این اے میں ہونے والے تغیرات یا تبدیلیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جاندار کے ہر خلیے میں اس کا ڈی این اے ہوتا ہے۔ اسے بلیو پرنٹ یا بلڈنگ بلاک بھی کہہ سکتے ہیں۔ اصل میں یہ زنجیر کی شکل کا کیمیکل کوڈ ہے جس کی ہدایات کے مطابق خلیہ نشو نما پاتا اور اپنا فریضہ ادا کرتا ہے۔
ڈی این اے کروموسوم کا حصہ ہے جو کہ جوڑوں کی صورت میں خلیے کے مرکزے میں پایا جاتا ہے۔ انسان کے ہر خلیے میں کروموسوم کے 23 جوڑے یا 46 کروموسوم ہوتے ہیں۔ بائیس جوڑوں کو 1 سے 22 تک نمبر دئیے گئے ہیں۔ تئیسویں جوڑے کو مردوں میں ایکس وائی (XX) اور عورتوں میں ایکس ایکس (XY) کہتے ہیں۔ یہ کروموسوم انسان کی جنس (نر یا مادہ) کا تعین کرتا ہے۔ خلیے کی تقسیم یعنی ایک سے دو خلیے بننے کے عمل کے دوران خلیے کے ڈی این اے کی بھی کاپی بن جاتی ہے جو نئے خلیے کو ملتی ہے۔ ڈی این اے میں تغیر کی وجہ کاپی کے دوران ہونے والی غلطیاں (اضافہ، تخفیف، متبادل) ہیں۔ یہ اغلاط کبھی رحمت، کبھی زحمت، اور کبھی بےضرر ثابت ہوتی ہیں۔ رحمت کی مثال ڈی این اے میں ہونے والے وہ تغیر یا تبدیلیاں ہیں جو وائرسوں اور جراثیموں کے مقابلے کے لئے انسان کے دفاعی نظام کو مضبوط کر دیتی ہیں۔ نیز یہ تبدیلیاں انسان کی بدلتے ماحول سے مطابقت رکھنے کی صلاحیت کو بھی بڑھا دیتی ہیں۔ زحمت کی مثال وہ تبدیلیاں ہیں جو بچوں میں موروثی امراض کا سبب بنتی ہیں۔ بے ضرر تبدیلیوں کی ایک مثال انسان کی نیلی آنکھیں ہیں۔
کسی جاندار کے ڈی این اے میں کاپی کے عمل کے دوران ہونے والی غلطیاں یا تبدیلیاں لاکھوں کروڑوں سال ہوتی رہیں تو ان کے نتیجے میں جاندار ایک نئی نوع کا جانور بن جاتا ہے۔ چار ارب سال پہلے زمین پر صرف یک خلوی جاندار تھے۔ ڈی این اے میں ہونے والی تبدیلیوں (جنہیں ہم ارتقا بھی کہہ سکتے ہیں) کے نتیجے میں آہستہ آہستہ کثیر خلوی جاندار وجود میں آ گئے۔ پھر ان کثیر خلوی جانداروں سے مزید پیچیدہ اجسام والے جاندار نمودار ہو گئے۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کی ابتدا سادہ ترین یک خلوی جاندار سے ہوئی اور پھر ارتقا کے عمل سے بتدریج پیچیدہ سے پیچیدہ جاندار وجود میں آتے گئے۔ انہی جانداروں میں سے ایک حضرت انسان ہے۔
جن احباب کو بائیولوجی یا علم حیاتیات کے ذریعے سے ارتقا کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے ان کی سہولت کے لئے اب ارتقا کے عمل کو فزکس اور کیمسٹری کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کریں گے۔ آپ شائد جانتے ہوں کہ ہماری دنیا میں کل ١١٨ عناصر ہیں اور ان میں ٩٤ عناصر قدرتی وجود رکھتے ہیں۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ 14 ارب سال پہلے جب کائنات وجود میں آئی تو آغاز میں صرف ایک عنصر ہائیڈروجن تھا۔ باقی تمام عناصر ہائیڈروجن سے بنے ہیں۔ کیسے؟ آپ اس عمل کو سمجھ جائیں گے تو حیات کا ارتقا بھی آپ کی سمجھ میں آ جائے گا۔
یک خلوی جاندار کی طرح ہائیڈروجن بھی سادہ ترین عنصر ہے۔ اس کے مرکزے میں صرف ایک پروٹان یا پروٹون ہوتا ہے جس کے گرد ایک الیکٹران یا الیکٹرون گردش کرتا ہے۔ جوہری اتحاد کے عمل سے چار ہائیڈروجن ایٹموں کے ملنے سے ایک ہیلیم ایٹم وجود میں آتا ہے۔ ہیلیم ایٹم کے مرکزے میں دو پروٹون اور دو نیوٹرون ہوتے ہیں جن کے گرد دو الیکٹرون گردش کرتے ہیں۔ گویا ہائیڈروجن ایٹموں کے چار میں سے دو پروٹون نیوٹرون میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ سورج کی روشنی اسی عمل کا نتیجہ ہے۔ ہیلیم ایٹموں کے جوہری اتحاد سے لیتھیم، بیریلیم، بورون، کاربن، نائٹروجن، آکسیجن، اور دیگر عناصر وجود میں آتے ہیں۔ ہر نیا عنصر پہلے والے عنصر سے زیادہ پیچیدہ اور وزنی ہوتا ہے۔ اس وقت بھی کائنات میں ٧٣% ہائیڈروجن، ٢٥% ہیلیم اور صرف ٢% باقی عناصر ہیں۔
خیال رہے سورج کے اندر ہیلیم سے بننے والے عناصر لیتھیم، بیریلیم، اور بورون پائیدار نہیں ہوتے اور فورا” فنا ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ عناصر کائنات میں موجود کیوں ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عناصر نہ صرف ستاروں کے اندر بنتے ہیں بلکہ بگ بینگ، نیوٹرون ستاروں کے ادغام، کم کمیت والے ستاروں کی موت، دیوہیکل اور سفید بونے ستاروں کے پھٹنے، اور کائناتی شعاعوں کے انشقاق سے بھی وجود میں آتے ہیں۔ زمین پر اور کائنات میں پائے جانے والے لیتھیم، بیریلیم، اور بورون کائناتی شعاعوں کے انشقاق کے نتیجے میں وجود میں آئے۔
جب ہم بچے تھے تو آسمان پر چمکتے ستاروں کو چراغ سمجھتے تھے۔ سائنسی علوم کے مطالعے سے انکشاف ہوا کہ ستارے فیکٹریاں ہیں جہاں عناصر بنتے ہیں۔ جب کسی سورج کی تمام ہائیڈروجن جوہری اتحاد کے نتیجے میں ہیلیم میں بدل جاتی ہے تب ہیلیم سے کاربن، نائٹروجن، آکسیجن، فلورین، نیون، سوڈیم، میگنشیم، ایلومینیم، سلیکون، فاسفورس، سلفر، کلورین، ارگون، پوٹاشیم، کیلشم، اور دیگر عناصر بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ تین ہیلیم ایٹم جوہری اتحاد کرکے ایک کاربن ایٹم بناتے ہیں۔ کاربن اور ہیلیم ایٹم کے جوہری اتحاد سے آکسیجن، آکسیجن اور ہیلیم ایٹم کے اتحاد سے نیون، اور نیون اور ہیلیم ایٹم کے اتحاد سے میگنشیم کا عنصر وجود میں آتا ہے۔
ہلکے عناصر سے بھاری عناصر بنانے کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بالآخر سلیکون اور سلفر کے ایٹموں کے جوہری اتحاد سے لوہا بن جاتا ہے۔ لوہے کا بننا ستارے یا سورج کے لئے پیغام موت ثابت ہوتا ہے۔ ستارے کے اندر اتنی حرارت یا توانائی نہیں ہوتی کہ وہ لوہے کو اس سے بھاری کسی عنصر میں تبدیل کر سکے۔ ستارہ سپرنووا میں تبدیل ہو کرپھٹ جاتا ہے۔ سپرنووا کے پھٹنے سے بےپناہ حرارت اور توانائی خارج ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ آوارہ نیوٹران ستارے میں موجود عناصر کے ایٹموں میں گھس کر انھیں یورینیم اور پلوٹونیم سے بھی زیادہ بھاری عناصر میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
خوش قسمتی سے ہمارا سورج کائنات کی تخلیق کے کوئی دس ارب سال بعد وجود میں آیا۔ نیز یہ ایک اوسط سائز کا ستارہ ہے۔ لہذا اس کے لوہا بنانے اور سپر نووا بن کر پھٹنے کا کوئی امکان نہیں۔ پانچ ارب سال پہلے اپنی پیدائش سے اب تک سورج اپنی ٣٧% ہائیڈروجن کو ہیلیم میں بدل چکا ہے۔ گویا سورج نے اپنی آدھی عمر گزاری ہے۔ سورج ہیلیم سے لے کر پولونیم تک کوئی ٨٠ عناصر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس وقت سورج میں 70% ہائیڈروجن، 28% ہیلیم، 1۔5% کاربن، نائٹروجن، اور آکسیجن، اور 0۔5% دوسرے عناصر مثلا” لوہا اور نکل ہیں۔ جب سورج کی تمام ہائیڈروجن ہیلیم اور دوسرے عناصر میں تبدیل ہو جائے گی تو سورج پہلے پھول کر دیوہیکل سرخ ستارہ اور پھر سکڑ کر سفید بونا ستارہ بن جائے گا۔ سورج کا سائز یا حجم زمین کے برابر رہ جائے گا۔
قصہ مختصر ہماری کائنات میں موجود اربوں کھربوں کہکشائیں، ستارے، سیارے، ہماری زمین اور اس کے براعظم، پہاڑ، دریا، سمندر، جھیلیں، جنگل، اور کروڑوں اقسام کی نباتات اور حیوانات سب کے سب عناصر سے بنے ہیں اور ہائیڈروجن ان تمام عناصر کی ماں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہائیڈروجن نہ ہوتی تو کائنات میں کسی چیز حتیٰ کہ زندگی کا بھی وجود نہ ہوتا۔ عناصر ستاروں کے اندر جوہری اتحاد کے عمل سے، ستاروں کے سپرنووا بن کر پھٹنے، اور کائناتی شعاعوں کے انشقاق سے وجود میں آتے ہیں۔ کسی بھی عنصر کی شناخت اس کے ایٹم کے مرکزے میں موجود پروٹون کی تعداد ہے جسے اس کا ایٹمی نمبر بھی کہتے ہیں۔ کسی بھی عنصر کے ایٹم میں پروٹون کی تعداد بڑھا یا گھٹا کر اسے دوسرے عنصر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
مثلاً سونے کے مقابلے میں پلاٹینم کے ایٹم میں ایک پروٹون کم ہوتا ہے اور مرکری کے ایٹم میں ایک پروٹون زیادہ۔ اگر پلاٹینم کے ایٹم کے مرکزے میں ایک پروٹون کا اضافہ کر دیا جائے تو وہ سونا بن جائے گا۔ اس طرح مرکری کے ایٹم کے مرکزے سے ایک پروٹون نکال دیا جائے تو وہ بھی سونا بن جائے گا۔ بالکل یہی معاملہ حیات کا ہے۔ زمین پر حیات کی ابتدا کوئی ساڑھے چار ارب سال پہلے ایک خلیے کی پیدائش سے ہوئی۔ پھر ارتقا کے عمل سے کثیر خلوی جاندار وجود میں آتے گئے۔ عنصر کے ایٹم کی طرح جاندار کے ہر خلیے کے مرکزے میں ڈی این اے ہوتا ہے جسے اس جاندار کا بلوپرنٹ یا تعمیراتی پلان بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس ڈی این اے میں لاکھوں کروڑوں سال تبدیلیاں ہوتی رہیں تو ایک نئی نوع کا جاندار وجود میں آ جاتا ہے۔ یہی ارتقا ہے۔
انسان کا جسم 37 سے 100 کھرب خلیوں سے مل کر بنا ہے۔ ہر سیکنڈ انسان کے دس سے بیس لاکھ خلیے مر جاتے ہیں۔ فکر نہ کریں۔ انسان کا جسم ہر سیکنڈ دو کروڑ نئے خلیے بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سات سے دس سال میں انسان کے سارے خلیے مر جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے خلیے لے لیتے ہیں۔ گویا ہر سات یا دس سال بعد آپ کو ایک نیا جسم مل جاتا ہے۔