بیرسٹر حمید باشانی
پاکستان کے حوالے سے حق آزادی رائے کا سوال آج کل پھر زیر بحث ہے۔ یہ سوال کچھ گزشتہ کچھ عرصے سے کچھ صحافیوں پر ہونے والے حملوں، ان کے اغوا سے اٹھا۔رد عمل کے طور پر صحافیوں کے مظاہرے سے حامد میر اور دیگر صحافیوں کی تقاریر سے اس بحث میں دلچسپی بڑھی ہے۔ اس تناظر میں عام آدمی کے لیے بھی یہ سوال دلچسپی کا باعث بنتا جا رہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی آخر ہے کیا چیز، اور اس باب میں پاکستان کہاں کھڑا ہے۔کسی صحافی کو کیا کہنے کی آزادی ہونی چاہیے ؟اور اسے کیا کہنے سے روکا جا سکتا ہے ؟
اظہار رائے کی آزادی کی جب بات ہوتی ہے تو اس میں اظہار کے تمام ذرائع اور اقسام شامل ہیں۔ ان میں مصوری، موسیقی، بت تراشی، مجسمہ سازی اور تحریر سے لیکر عام تقریر تک بے شمار ذرائع شامل ہیں۔لیکن ہمارے ہاں عوامی سطح پرعام طور پر تحریر و تقریر ہی اظہار کے بنیادی ذرائع کے طور پر زیر بحث آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ عام طور پر تحریر و تقریر کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ تحریر و تقریر کی آزادی یہ ہے کہ کسی شخص کو اپنے رائے اور خیالات کو بلا خوف و خطر دوسروں تک پہچانے کی آزادی ہو۔ اس شخص کو اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت کسی قسم کا سنسر کا ڈر نہ ہو۔ کسی کی طرف سے اپنے اوپر حملہ ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ یا یہ خوف دامن گیرنہ ہو کہ کوئی بات کہنے سے اسے کوئی جانی یا مالی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ یا اسے اپنے خلاف کسی قسم کی قانونی کاروائی یا پابندی کا ڈر نہ ہو۔
اظہار رائے کی آزادی کو دنیا بھر ایک انسانی حق کےطور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل19 کے تحت اس کو باضابطہ طور تسلیم کیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق ہر شخص کو کسی قسم کی مداخلت کے بغیر رائے رکھنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ اور ہر شخص کو اپنی رائے کے اظہار کا حق ہونا چاہیے۔ جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے یہ حق لا محدود اور مطلق نہیں ہے۔ اس حق کو محدود اور مشروط کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس حق کو محدود کرنے والی ان شرائط اور حدود کو بھی عالمی سطح پر طے اور تسلیم کیا جا چکا ہے۔
مثال کے طور پراس اصول کوکینیڈین چارٹر او راہیٹس اور فریڈم میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی ہے، اور اس آزادی پر صرف وہ معقول پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، جن کو ایک آزاد اور جمہوری معاشرے میں جائز قرار دیا جا سکتا ہو۔ یعنی حکومت یہ ثابت کرنے کی پوزیشن میں ہو کہ یہ پابندیاں معقول ہیں، اور ایک آزاد اور جمہوری معاشرے میں ان پابندیوں کا جواز موجود ہے۔ اگر حکومت یہ ثابت نہیں کر سکتی تو آزاد ملک کی عدالتیں ان پابندیوں کو غیر معقول اور بلا جواز قرار دے کر ختم کر سکتی ہیں۔ ایک آزاد اور جمہوری معاشرے میں اظہار رائے کو محدود کرنے کے کچھ تسلیم شدہ جواز ہیں، جن کو عدالتوں نے بار بار تسلیم کیا ہے، اور وہ اب عدالتی نظائر اور اصول بن چکے ہیں۔لیکن اس سے بھی بہت پہلے ان اصولوں کی وضاحت جان سٹیورٹ مل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ” آن لبرٹی ” میں کی ہے۔ جان لکھتا ہے کہ ایک مہذب سماج میں ارباب اختیار یہ حق صرف اس وقت استعمال کر سکتے ہیں، جب وہ دوسروں کو کسی نقصان سے بچانا چاہتے ہوں۔ گویا اس بات کا ثبوت ہو کہ تحریر و تقریر سے کسی دوسرے کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کے بغیر ان حدود کا اطلاق ہر حال میں غلط ہے۔
یہ بڑے حیرت و افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں اظہار رائے کی آزادی پر اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ابھی صرف گفتگو کا آغاز ہورہا ہے۔ اور ہمارا سماج اس کی جزئیات اور اس کے درست اطلاق پرتقسیم اور کنفیوزڈ ہے۔ حالاں کہ آزادی رائے ایک بہت ہی پرانا اصول ہے اور جمہوریت کے ابتدائی تصورات میں سے ایک ہے۔ “قدیم یونان میں جمہوریت کی ابتدا” نامی کتاب میں اس تصور کی تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ کتاب کئی مصنفین کی مشترکہ کاوش ہے، جسے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا نے2007 میں چھاپا تھا۔
اس کتاب کے مطابق اظہار رائے کی آزادی کا تصور پانچویں صدی قبل مسیح کے ابتدا میں ابھر کر سامنے آیا تھا۔ رومن ایمپائر سے بھی پہلے ” رومن ریپبلک‘ میں مذہب کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کی اقدار کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ کلاسیکل رومن تہذیب کے دور میں روم کے عوام اور ان کی سینٹ اس اصول کو مانتے تھے۔ اور یہ کل کی بات نہیں بلکہ کوئی509 قبل مسیح کی بات ہو رہی ہے۔ نسبتا جدید دور کی بات کریں توانگلینڈ میں سن1689 میں ” بل آف رائٹس” پاس ہوا تھا۔ اس بل میں پارلیمنٹ میں اظہار رائے کو آئینی حق تسلیم کیا گیا تھا۔
آگے چل کر 1766میں سویڈن میں پریس کی آزادی کا بل سامنے آیا۔ 1789 کے فرانسیسی انقلاب نے اس باب میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا ۔ فرانسیسی انقلاب کے بعد تقریر کی آزادی کواہم ترین حق تسلیم کیا گیا۔ اس کے چند برس بعد1791میں امریکی آئین میں پہلی ترمیم متعارف کروائی گئی، جس کے ذریعے اظہار رائے کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ ان ممالک میں تب سے شہریوں کو اظہار و خیالات کی آزادی بلا کسی مداخلت کے حاصل ہے۔ اور کوئی ان کو محدود کرنے یا ان پر قدغن لگانے کی نہیں سوچتا۔ غدار اور ملک دشمن کے الزامات کی روایت بھی یہاں دم توڑ چکی ہے۔
ان ممالک کے علاوہ کئی علاقائی اور عالمی قوانین میں ان حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔ سول اور پولیٹیکل رائٹس کے کووونٹ کے آرٹیکل انیس، یورپی کنوینشن آن ہیومن رائٹس کے آرٹیکل دس، امریکی کنوینشن اور افریکی چارٹر سمیت ہر جگہ اس کو قانون کا درجہ حاصل ہے۔ اس قانون کے تحت اظہار کے ذرائع اور متن دونوں کو تحفظ حاصل ہے۔ کوئی شہری اپنی بات زبانی کرے یا تحریری، یہ بات عام دھارے کے میڈیا میں ہو یا سوشل میڈیا پر اس حق کی حفاظت کے عالمی سطح پرقوانین موجود اور تسلیم شدہ ہیں۔
جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی باہم منسلک اور مشروط ہیں۔ سچی جمہوریت ایک ایسا نظام ہے، جس میں عوام خود اپنے آپ پر حکومت کرتے ہیں۔ خود پر حکمرانی کے لیے عوام کا پورے طریقے سے اگاہ اور با شعور ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہر طرح کی معلومات تک رسائی ضروری ہے۔ عوام کو یہ رسائی تب ہی ممکن ہوگی، جب اس پر کسی قسم کی قدغن نہ ہو۔ اس کے بغیر چند لوگ یا چند گروہ رائے عام کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ جمہوریت کے نام پر ایک فراڈ ہے۔ چنانچہ اظہار رائے اور تنقید کی آزادی کے بغیر جمہوریت محض ایک فریب ہے۔
پاکستان کے آئین میں بھی اظہار رائے کے باب میں جو کچھ درج ہے وہ آزادی اظہار رائے کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے عملی طور پر کسی کو یہ ضمانت میسر نہیں۔ اس کے بجائے صحافیوں کو ایک سخت قسم کے مخاصمانہ ماحول کا سامنا ہے۔ یہاں صحافی قتل اور اغوا ہوتے رہے ہیں۔اپنے خیالات اور آرا کے اظہار کی بنیاد پر ان کو ملازمتوں سے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر برطرف کیا جاتا رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے، حالیہ واقعات ان نہ مساعد حالات کی عکاسی کرتے ہیں، جن میں پاکستان کےصحافی اپنے فرائض منصبی ادا کرنے پر مجبور ہیں۔