خالد محمود
جان بوجھ کر پُوری پلاننگ سے ریلوے کو مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے۔ایک زمانہ تھا جب ریل عام آدمی کے ساتھ امراء کی بھی شاندار سواری تھی۔ماس ٹرانزٹ سسٹم اور پبلک ٹرانسپورٹ کو مجرمانہ نیت سے مکمل نظر انداز کیا گیا ہے۔ ریلوے کی بدانتظامی اور تاخیر سے جوان لوگ تیزی سے بوڑھے کر دیے گئے۔چالیس میل کی مسافت کو دو گھنٹے میں طے کرا کے روزانہ مسافروں کا حلیہ ہی بگاڑ کے رکھ دیا گیا ہے۔
ہر لٹر پٹرول کی سیل پر تقریباً 60 روپے مرکزی حکومت لے جاتی ہے۔ریل اور بس کی سستی سواری پر خرچ کرنے کی بجائے ایک آدمی ایک اکیلا شخص ایک عدد موٹر سائیکل پر اور ایک آدمی ایک فور وھیل گاڑی پراستعمال کی عادت ڈالی گئی ہے۔جس سے سڑکوں پر ٹریفک حادثات اور فضائی آلودگی میں لگاتار اضافہ ہوا ہے۔
دُنیا کے تمام بڑے شہروں میں فضائی آلودگی اور ہائیڈروکاربن ایمشنز کم سے کم سطح پر لے جانے کے لئے الیکٹرک ٹرین اور الیکٹرک بسیں بھی استعمال کی جارہی ہیں۔ایک گاڑی میں ایک آدمی کی سواری کی حتی الامکان حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ مگر یہاں الیکٹرک بس اور گاڑیوں کو پروموٹ کرنے کی بجائے پٹرول پر چلنے والی ”ایس یُو وی“ کی نئی کھیپ مارکیٹ میں گھسیڑ دی گئی ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم اور پبلک اسٹیٹ میں ریاست ہر آدمی کی خیرخواہ، کفیل اور وکیل ہوتی ہے۔مگر یہاں ہر آدمی کو حالات کے جبر و ستم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ایک استثناء ملتان میں نظر آتا ہے جہاں آپ بیس روپے دے کر کے بھی بسوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتے ہیں مگر یہ بسیں نسبتاً چھوٹی ہیں۔باقی شہروں میں عام آدمی پرانی پھٹیچر بسوں،ویگنوں میں دھکے کھاتا ہے یا پھر چنگ چی رکشوں میں ٹانگیں تڑواتا نظر آتا ہے۔جس قدربے ڈھنگ طریقے اور غیر محفوظ طریقے سے یہ رکشے یُو ٹرن مارتے ہیں اُس سے حادثات میں اضافہ ہوا ہے۔ غیر محفوظ یُو ٹرن لینا بلکہ مارنا اب ایک قومی کھیل ٹھہرا۔یُو ٹرن مارنے پر کوئی شرمندگی،گرفت یا کسی قانونی گرفت میں نہیں ہوتا ہے۔بڑے سیاسی اکابرین تو ایک دن میں کئی کئی بار یُو ٹرن مار کر بالکل ھشاش بشاش اور شاداں نظر آتے ہیں۔یُو ٹرن کی تاثیر روح افزاء اور صندل کے شربت کو بھی شرمندہ کرتی نظر آتی ہے۔
ہر ٹراما سنٹر میں ان رکشوں کے مضروب موٹر سائیکل سوار اور دوسرے کثرت سے نظر آتے ہیں۔پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے ٹراما سنٹرز سے حادثات کے اعداد و شمار سے موٹر سائیکل رکشوں سے حادثات کی شرح معلوم کی جا سکتی ہے۔ ہماری سڑکوں پر کاغذات ساتھ نہ رکھنے اور ھیلمٹ نہ پہننے پر تو فوری جرمانہ کیا جاتا ہے مگر لاپرواہی سے خطرناک ڈرائیونگ اور موونگ وائیولیشنز کو کوئی نہیں پکڑتا ہے۔خلقت خدا کی اور حفاظت بھی وہی کرے۔
سڑک استعمال کرنے اور متعلقہ محکمہ جات کی حادثات کی روک تھام کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔حالانکہ پُوری دنیا میں سکولوں کالجوں اور موٹر وھیکلز کے محکمے اس بات کی تربیت دیتے ہیں کہ دفاعی ڈرائیونگ کیسے کی جائے اور ٹریفک کے قوانین پر عمل کر کے حادثات سے بچنا عین ممکن ہے۔
ریل کے حادثے میں قیمتی جانوں کا ناقابلِ تلافی نقصان ایک قومی المیہ ہے۔اسے مشئیت ایزدی سمجھنے کی بجائے اس حادثے کے پیچھے انسانی غفلت اور مکینیکل خرابیوں کا فورینزک تجزیہ ہونا لازمی ہے تاکہ آئندہ اس طرح کے حادثات کی مکمل روک تھام کی جا سکے۔ریل ٹریک کی حفاظت،نگہداشت اور مرمت کے معاملے میں مجرمانہ غفلت ہوئی ہے۔ ذمہ داروں کا تعین اور لواحقین کے لئے مالی معاوضہ فوراً ادا ہونا چاہئیے۔