سینٹر عثمان کاکڑ کی پراسرار ہلاکت اور احسان اللہ احسان کا دعویٰ

سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کی موت کے حوالے سے جماعت الاحرار اور تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے بیان نے پاکستان کے پختون قوم پرستوں اور سیاسی کارکنوں کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

اس کے برعکس حکومت نے احسان اللہ احسان کے بیان کو مضحکہ خیز اور حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔ پاکستانی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ عثمان کاکڑ اپنے گھر کے غسل خانے میں کچھ دن پہلے پھسل کر گر گئے تھے، جس کی وجہ سے ان کے سر پر چوٹ آئی تھی اور انہیں کوئٹہ کے ایک اسپتال میں لے جایا گیا تھا۔ بعد ازاں انہیں کراچی لے جایا گیا، جہاں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ میڈیا رپورٹوں نے پوسٹ مارٹم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں تھا جبکہ ان کی موت کا سبب کچھ دیگر ٹیسٹوں کے بعد معلوم ہو سکےگا۔

پاکستان کے پختون قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ عثمان کاکڑ کی موت طبعی نہیں تھی۔ اس حوالے سے سب سے پہلے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ایک ٹویٹ کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ عثمان کاکڑ کے ڈاکٹروں سے رابطے میں تھے جن کا خیال ہے کہ کاکڑ کے سر پر اتنی شدید چوٹ محض گرنے سے نہیں لگ سکتی تھی۔ کل پیر کے روز پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا میں بھی کچھ اراکین نے ان دھمکیوں اور خطرات سے ایوان کو آگاہ کیا تھا، جو عثمان کاکڑ کی جان کو لاحق تھے اور اسی لیے ان کی موت کی پارلیمانی چھان بین کی جانا چاہیے۔

ان شکوک و شبہات کو اس وقت مزید تقویت ملی، جب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے کسی صحافی کی پوسٹ پر جواب دیتے ہوئے فیس بک پر کہا کہ عثمان کاکڑ کی موت حادثاتی نہیں تھی بلکہ انہیں قتل کیا گیا ہے اور یہ کہ ماضی میں خود احسان کو بھی ایک ہٹ لسٹ دی گئی تھی، جس میں عثمان کاکڑ کا نام بھی شامل تھا۔

احسان اللہ احسان کے بقول اس مبینہ لسٹ میں عثمان کاکڑ کے علاوہ ڈاکٹر سید عالم محسود اور معروف پختون دانشور اور سیاست دان افرسیاب خٹک کے نام بھی شامل تھے۔ احسان اللہ احسان کے اس دعوے کی وجہ سے سیاسی کارکنوں اور قوم پرست پختون سیاستدانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ عثمان کاکڑ کی موت کی مکمل تحقیقات کرائی جائے۔

اس بارے میں ڈاکٹر سید عالم محسود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، میں نے کچھ ملکی اور غیر ملکی صحافیوں سے اس بات کی تصدیق کرائی ہے کہ یہ اکاؤنٹ احسان اللہ احسان کا ہے بھی یا نہیں۔ انہوں نے تصدیق کی ہے کہ یہ اکاؤنٹ ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان ہی کا ہے۔ عثمان کاکڑ کی زندگی کو خطرات لاحق تھے اور انہوں نے سینیٹ میں ان خطرات کا تذکرہ بھی کیا تھا۔ جس نوعیت کے خطرات انہیں لاحق تھے، ویسے ہی مجھے بھی لاحق ہیں۔ مجھے بھی تیرہ ماہ سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔ میں نے اپنی سرگرمیاں بہت محدود کردی ہیں۔ میری پروفیشنل زندگی بالکل تباہ ہوگئی ہے۔ میں میڈیکل پریکٹس بھی نہیں کر سکتا اور گھر تک محدود ہو گیا ہوں۔ میں نے اپنی سکیورٹی کے لیے پرائیویٹ گارڈز رکھے ہوئے ہیں، جن کو میں بھاری تنخواہ ادا کرتا ہوں۔ اگر حکومت مجھے سکیورٹی دے بھی دے، تو مجھے یہ یقین نہیں کہ وہ کس طرح کی سکیورٹی ہوگی‘‘۔

ڈاکٹر سید عالم محسود کا مزید کہنا تھا کہ وہ دھمکیوں سے ڈریں گے نہیں، ہم کوئی غیر آئینی بات نہیں کرتے۔ ہم پختون قوم کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ آئین کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں۔ جمہوریت کی سربلندی کی بات کرتے ہیں اور موت کے خوف سے اس طرح کی باتیں کرنا نہیں چھوڑیں گے۔‘‘

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئر پرسن ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی جوڈیشل انکوائری ہونا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، عثمان کاکڑ کی موت کی پوری چھان بین ہونا چاہیے جبکہ ڈاکٹر سید عالم اور افراسیاب خٹک کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جانا چاہیے۔ عثمان کاکڑ کی فیملی متاثرہ فریق ہے، تحقیقات ایسی ہونا چاہیے، جس سے اس خاندان کو بھی تسلی ہو۔ میرے خیال میں جوڈیشل انکوائری بہتر ہو گی‘‘۔

احسان اللہ احسان کے بیان کے بعد پختون قوم پرست حلقے عثمان کاکڑ کی موت میں ریاستی اداروں کو ملوث کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم حکمران جماعت پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی افسوس اور شرم کی بات ہے کہ پختون قوم پرست ٹی ٹی پی کے ایک دہشت گرد کے بیان کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں اور اس پر یقین کر رہے ہیں جب کہ وہ اپنے ملک کے اداروں پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے فوری بعد پاکستانی فوج کے خلاف ایک منظم سازش کے تحت الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس کے پیچھے غیر ملکی قوتیں ہیں۔

dw.com/urdu

Comments are closed.