بیرسٹرحمید باشانی
کینیڈا کے شہر لندن میں نفرت انگیز جرم کا واقعہ ایک ہولناک واقعہ ہے۔ اس پرشدید ردعمل ہوا ہے۔ یہ رد عمل مقامی اور عالمی سطح پر یکساں ہے۔ اس واقعے کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن مذمت اور افسوس کے اظہار کی کوئی شدت بھی اس جانی نقصان کی تلافی نہیں ہے، جو ایک بے رحم سفاک شخص نے کیا ہے۔ رد عمل کی کوئی شکل بھی اس خاندان میں واحد بچ جانے والےمعصوم بچے کے دکھوں کو مداوا نہیں، جو خود بھی زخموں سے چور ہسپتال میں پڑا ہے۔
کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اسے دہشت گردی کا افسوس ناک واقعہ قرار دیا ہے۔ وہ بلاتاخیر جائے وقوع پر پہنچے۔ واقعے کی واضح اور سخت الفاظ میں مذمت کی۔ حکام کے ساتھ ساتھ ملک کی سول سوسائٹی اس وحشیانہ حرکت کی مذمت میں یکجا ہے۔ کینیڈا سے باہر پاکستان سمیت دوسرے ممالک میں اس عمل کو اسلامو فوبیا قرار دیکر اس کے تدارک کی بات کی گئی ہے۔ واقعے کو اسلاموفوبیا قرار دینےوالوں میں پاکستان کے وزیر اعظم بھی شامل ہیں۔
اب حسب روایت واقعہ پر بحث ہو رہی ہے۔ سیاسی، سماجی، مذہبی اور نفسیاتی حوالوں سے واقعے کے ہر پہلو کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ہر کوئی اپنے تجربات، علم، اور رجحان طبع کے مطابق اس واقعے کو دیکھ رہا ہے۔ کوئی اسے اسلاموفوبیا کا شاخسانہ قرار دے رہا ہے۔ کوئی اسے نسل پرستی کا گھناونہ فعل سمجھ رہا ہے۔ کچھ لوگ اسے دہشت گردی کہتے ہیں، دوسرے اسے ایک سیدھا سادا قتل قرار دے رہے ہیں۔کوئی اسے زینوفوبیا کہہ رہا ہے، اورکچھ لوگ اسے نفرت انگیز جرم قرار دینے پر بضد ہیں۔
اگر اکیڈیمک نقطہ نظر سے ان ساری اصطلاحات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بہت فرق ہے۔ ہر اصطلاح کا اپنا پس منظر اپنے معنی اور جداگانہ تعریف ہے۔ اس واقعے کے تناظر میں یہ سب اصطلاحات اہم ہیں۔ لیکن عام آدمی کے لیے یہ ایک وحشیانہ قتل ہے، جس کے پیچھے نفرت ہے۔ اس نفرت کی وجہ مذہب بھی ہو سکتا ہے، اور نسل بھی۔ اور اجنبیوں اور غیر ملکیوں سے خوف اور نفرت کا عنصر بھی۔ دانشوروں کا کام ہے کہ اس واقعے کے درست محرکات ک جائزہ لیکر اس پر درست اصطلاح چسپاں کریں۔ مگر عام آدمی اس سے بے نیاز ہے۔ البتہ وہ غمگین اور اداس ہے، اور اسے مقتولین سے واضح ہمدردی ہے۔
جہاں تک قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مقامی حکام کا تعلق ہے تو انہوں نے پہلے پہل اسے نفرت انگیز جرم قرار دیکر ملزم کو قتل اور اقدام قتل کے الزامات میں چارج کیا۔ پھربعد میں اس کو دہشت گردی کا عمل بھی قرار دیا، جو اسلاموفوبیا سے جڑا ہے۔ اب معاملہ عدالت میں ہے، اور ملک کا کریمنل جسٹس سسٹم بہت شفاف اور موثر ہے۔ مقتولین اور قاتل دونوں سے انصاف ہوگا۔ اس بات کا سب کو یقین ہے۔ اس لیے یہاں نہ تو کوئی انصاف کا مطالبہ کر رہا ہے، نہ ہی عبرتناک سزا کی کوئی مانگ ہے۔ جو کچھ ہوگا قانون و انصاف کے مطابق ہوگا، اور سب کو اس پر بھروسہ ہے۔
کمیونٹی کے لیے البتہ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اور تمام کینیڈین کے لیے یہ گریبان میں جھانکنے کا وقت ہے۔ اس ملک میں گزشتہ چند سالوں میں نفرت انگیز جرائم میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات اعداد و شمار سے ثابت ہے۔ یہ دماغ کو چکرا دینے والے اعداد و شمار ہیں۔ ان حالیہ برسوں میں نفرت کی سودا گری سرحد کے اس پار امریکہ میں کچھ سیاست کار کر رہے تھے، لیکن یہ نفرت امریکی سماج میں اتنی عام نہیں ہوئی جتنی کینیڈا میں پھیل گئی۔ نسل پرستی کی بنیاد پر یہاں جرائم کے ارتکاب میں اضافہ ہوا۔ ان نفرت انگیزجرائم کا شکار سیاہ فام ، یہودی اور مسلمان یکساں طور پر شکار ہوئے۔
نسل پرستی کے جرائم کا شکار سیاہ فاموں میں عیسائی اور مسلمان سیاہ فام دونوں شامل تھے۔ لہذا ان جرائم میں اسلاموفوبیا سے زیادہ نفرت اورنسل پرستی کا عنصر نمایاں تھا۔ اور اس کی وجہ ماضی قریب میں کچھ سیاست کاروں اور حکام کی پالیسیاں تھیں۔ موجودہ حکومت سے پہلے یہاں جو دائیں بازوں کی قدامت پرست حکومت برسر اقتدار رہی ہے، اس کی بعض پالیسیوں کو نفرت انگیز جرائم میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امتیازی سلوک پر مبنی ان کے کچھ اقدامات نے اس خوبصورت سماج کو مذہب، رنگ اور نسل کی بنیاد پر تقسیم کیا۔ انہوں کچھ ایسے اقدامات کیے، جن کی کوئی منطقی توجیح مشکل تھی۔ شہریت کا بل اس کی ایک بڑی مثال تھی۔
شہریت کے قوانین میں تبدیلی کا بظاہر مقصد دہشت گردی روکنا تھا، لیکن عملی طور پر یہ بل سماج میں مذہبی اور نسلی تقسیم کا باعث بنا۔ ایک قانون شہریت کا حلف لیتے وقت چہرہ ڈھاپنے پر پابندی سے متعلق تھا۔ اس قانون کی توجیح شہریت لیتے وقت شناخت کی خاطر حجاب یا نقاب ہٹانا تھا۔ مگر مسلمانوں اور عرب ممالک کے تارکین وطن نے اسے اپنے مقدس مذہبی معاملے میں مداخلت قرار دیا۔ امیگریشن اور سیکورٹی کے حوالے سے حکومت کے لا محدود اختیارات خصوصا سیکورٹی سرٹیفیکٹ کے لیے تارکین وطن کے خلاف معلومات فراہم کرنے یا خفیہ رکھنے کے حکومتی اختیارات کا بل بھی قابل ذکر ہیں۔
گزشتہ برسوں کے دوران کینیڈا میں نسل پرستی کی بنیاد پر نفرت پھیلانے والے دائیں بازوں کے گروپس کی تعداد اور سائبر سپیس پر ان کی موجودگی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں تقریبا تین سوسے زائد دائیں بازوں کے شدت پسند گروپ سر گرم ہیں۔ ٹرمپ کے دور میں ان گروپس کی تعداد میں تیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں ایسے گروپس زیادہ نمایاں ہیں ، جو سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر سرگرم ہیں ، اور وہ نازی اور فاشسٹ رجحانات رکھتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر گروپ مسلم دشمن، نسل پرستانہ سازشی تھیوریاں رکھتے ہیں۔ یہ گروپ سماج دشمن اور ریاست دشمن نظریات رکھتے ہیں، اور امریکہ میں اپنے ہم خیال گروپس کے ساتھ منسلک ہیں۔
برطانیہ میں قائم ایک ادارے انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹیجک ڈائیلاگ کی رپورٹ میں دائیں بازوں کے شدت پسند نظریات کے حامل تقریبا چھ ہزار چھ سو سوشل میڈیا سائٹس کی نشاندہی کی ہے، جن کے مالک کینیڈین ہیں۔ اسی طرح ٹویٹر پر شدت پسند اکاونٹ کے ساتھ بھی چھ ہزار سے زائد کینیڈین منسلک ہیں۔2020 کی اس رپورٹ میں دائیں بازوں کے ایسے شدت پسندوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جو باقاعدگی سے نفرت انگیز مواد اور تشدد کے حق میں پوسٹ کرتے ہیں۔
ان دائیں بازوں کے انتہا پسندوں کا نشانہ خود کینیڈیں وزیر اعظم ٹروڈو بھی ہیں۔ یہ لوگ عجیب و غریب سازشی تھیوریاں پھیلا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک مقبول تھیوری یہ رہی ہے کہ ٹروڈو کی قیادت میں کینیڈا کو ایک کمیونسٹ ڈیکٹیٹرشپ میں تبدیل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ایک شدت پسند جس نے کچھ عرصہ پہلےوزیر اعظم کی رہائش گاہ کا گیٹ ایک پک اپ ٹرک سے توڑکر اندر داخل ہونے کی کوشش کی تھی وہ بھی ان سازشی تھیوری والی ویب سائٹس کا شوقین تھا، جس میں اس طرح کی تھیوریاں گردش کرتی رہتی ہیں۔
کینیڈا میں حالیہ برسوں میں ‘ تنگ نظر قوم پرستی ” کے جذبات بھی بڑھے ہیں۔ ٹرمپ کے دور میں ان میں اضافہ ہوا، لیکن مجموعی طور پر پورے مغرب میں اس طرح کی تنگ نظر قوم پرستی بڑھی ہے۔ اس قوم پرستی کو بعض لوگ سیاسی مقاصد اور عوام میں مقبولیت کے حصول کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یورپ میں پہلے ہی یہ پالیسی اپنا کر کچھ لوگ پارلیمان تک جا پہنچے ہیں۔ کینیڈا میں بھی ایسے عناصر ان کے نقش پا پر چل کر سیاسی فائدہ اٹھانے کے آرزو مند ہیں۔ یہ ایک افسوسناک اور پریشان کن بات ہے، جس کا تدارک ضروری ہے۔