محمد شعیب عادل
ڈان اخبار نے اپنی 29 جون کی اشاعت میں کینیڈا سے متعلق ایک خبر شائع کی ہے جس کے مطابق” کینیڈا کے ایک صوبے میں ایک پاکستانی جس نے مسلمانوں کا روایتی لباس پہن رکھا تھا اس پر دو اشخاص نے چاقو سے حملہ کیا اور کہا کہ تم کون ہو اور ایسا لباس کیوں پہن رکھا ہے۔ زخمی ہونے والے نے یہ بھی کہا کہ تم نے داڑھی کیوں رکھی ہوئی” وغیرہ وغیرہ۔خبر کے مطابق اس نے یہ بھی کہا کہ اسے اپنی فیملی کی بھی فکر ہے کہ کہیں انہیں بھی نشانہ نہ بنایا جائے۔حسب معمول پاکستانیوں نے اسے اسلاموفوبیا قراردینا شروع کردیا ہے۔
خبر کے مطابق اس شخص نے مسلمانوں کا روایتی لباس پہن رکھا تھا۔۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کا کوئی روایتی لباس ہے؟ لباس کا تعلق تو علاقے سے ہوتا ہے۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں رہنے والے تمام افراد ،چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، کا لباس اپنے علاقے کے رہن سہن کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح عرب کے رہنے والے ہوں یا افریقہ کے باسی۔ یورپ میں رہنے والے مسلمان ہوں یا مسیحی، سب کا لباس بھی ایک سا ہوتا ہے۔
میں ستر اور اسی کی دہائی میں یورپ جانے والی کچھ فیملیز کو جانتا ہوں کہ جو پاکستان میں تو پردہ کرتی تھیں لیکن یورپ یا مغربی ممالک جا کر پردہ کرنا چھوڑ دیا۔ ان خواتین نے یورپی ممالک کے قوانین کے مطابق مختلف جگہوں پر ملازمت کے حصول کے لیے انٹرویو سمیت کسی بھی ٹیسٹ میں حجاب یا برقعے میں ملبوس ہونے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔
پاکستان میں بھی خواتین آہستہ آہستہ روایتی حجاب یا برقعہ پہننے کو ترک کرنا شروع ہوگئیں تھیں۔ اس کی واضح مثال تو ہماری اپنی فیملی کی ہے۔ اگر آپ 60، 70 حتیٰ کہ 80کی دہائی کی پنجاب یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں لگی گروپ فوٹو دیکھیں اور آج کے دور کے گروپ فوٹو سے موازنہ کریں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ آج تقریباً ہر لڑکی حجاب اور برقعے میں ملبوس نظر آئے گی۔
یہ سب برکات جہاد افغانستان کی دین ہیں۔ جب پاکستانی ریاست نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے افغانستان میں قتل وغارت کو جہاد کا نام دیا۔ جہاد کے لیے افرادی قوت حاصل کرنے کے لیےہر محلے میں سعودی پیسے سے مدرسے بننے شروع ہوگئے جہاں مذہبی انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ سلفی کلچر کی آمد بھی شروع ہوئی۔ پاکستانیوں یا کسی بھی علاقے کے روایتی لباس سے نفرت کا اظہار کیا گیا اورمذہب کے نام پر سلفی کلچر کو پروموٹ کیا گیا ۔اس سلفی کلچر نے سماجی سطح پر پوری دنیا میں تباہی پھیلائی ہے۔
نائن الیون کے بعد جب جہادی پوری دنیا میں پھیل گئے تو ا نھوں نے سلفی کلچر کوبھی یورپ میں سیکولرازم کی آڑ میں بطور سیاسی ایجنڈا پروموٹ کر نا شروع کیا ۔ جہاں پہلے لوگ اپنے گھروں میں چپکے سے نماز پڑھ لیتے تھے وہاں اب عوامی جگہوں پر نماز پڑھنے کا رواج ڈالا گیا۔ خواتین نے اصرار کیا کہ وہ دوران ملازمت حجاب یا برقعے میں ملبوس ہوں گی۔یورپ خاص کر یوکے میں تو مسلمان سیکولرازم کی آڑ لے کر اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ وہ کھلے عام یورپی تہذیب کو نہ صرف برا بھلا کہتے ہیں بلکہ شریعت نافذ کرنے کے مطالبات کرتے نظر آتے ہیں۔
اس طرح کی حرکتوں کے ردعمل میں یورپ میں مسلمانوں سے نفرت کا آغاز ہوا۔ اب اگر کوئی ان کی حرکتوں پر طعنہ زنی کرے یا نفرت کا نشانہ بنائے تو اسے جھٹ سے اسلاموفوبیا قرار دے کر مظلومیت کا رونا شروع کردیا جاتا ہے۔