امریکی درالحکومت واشنگٹن میں افغانستان کی صورتحال پر گرما گرم بحثیں ہورہی ہیں۔ اورکئی ممکنہ منظر نامے سامنے آرہے ہیں ۔
افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے اور اس سلسلے میں ان کی فتوحات ہوئی ہیں اور یہ فتوحات بغیر کسی خونریز لڑائی کے ہوئی ہیں۔کچھ ہلاکتیں ہورہی ہیں مگر یہ نوے کی دہائی کی نسبت بہت کم ہوں گی۔ اگر طالبان کا کابل پر قبضہ ہوا تو یہ کسی خونریز جنگ کے بغیر ہوگا۔ طالبان امریکہ سے تو مذاکرات کر چکے ہیں اور امریکہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے مطابق طالبان اشرف غنی حکومت سے شراکت اقتدار کے لیے مذاکرات کریں گے ۔جبکہ امریکہ معاہدے کے مطابق وہاں سے نکل رہا ہے۔
طالبان اس وقت ایران ، ترکی ، روس اور چین سے براہ راست مذاکرات کررہے ہیں۔ بھارت بھی طالبان سے مذاکرات کی کوشش میں ہے۔ اسی دوران طالبان اپنی پوزیشن مضبوط کررہےہیں۔ایران، ترکی، روس اور چین کے ساتھ مذاکرات کے بعد وہ اشرف غنی کی حکومت سے مذاکرات کریں گے ۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی فوجی ایسٹیبلشمنٹ اس وقت تنہا ہے ۔ گو پاکستا نی ریاست اپنے طور پر طالبان کی خوشنودی کے لیے انہیں میڈیا میں پرموٹ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ لیکن فیٹف کی پابندیوں کی وجہ سے طالبان بھی ان کے قریب نہیں پھٹک رہے کیونکہ یہاں سے انہیں کچھ ملنے والا نہیں جبکہ پاکستانی فوج کا اپنا خرچہ پورا نہیں ہورہا ۔ پچھلے کچھ سالوں سے طالبان بہرحال اتنے ترقی یافتہ ہوگئے ہیں کہ وہ براہ راست ایران، ترکی، روس اور چین سے مذاکرات کررہے ہیں۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ اگر طالبان کابل پر قبضہ کر لیتے ہیں تو ان کا طرز حکومت کیسا ہوگا؟ کیا اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ممالک اسے تسلیم کریں گے؟ اگر تسلیم نہیں کریں گے تو پھر ان کو حکومت چلانے میں دشواری ہوگی ۔ حکومت چلانے کے لیے وسائل چاہییں۔ صرف امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے غیر مشروط طور پر کابل حکومت کو ساڑھے تین ارب ڈالر سالانہ امداد کا اعلان کیا ہے۔ اگر طالبان شریعت پر مبنی نظام لائیں گے تو پھریہ امداد انہیں نہیں مل سکتی۔
ماضی کے برعکس عرب ممالک، جن میں سعودی عرب اور قطر اہم ہیں، بھی طالبان کی مالی امداد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ روس اور چین بھی ایسی کسی امداد کے حق میں نہیں۔روس اور چین ان سے کاروباری ڈیل ۔جن میں معدنیات کے ذخائر کا حصول ہے، کرنے کے حق میں ہیں اور یہ معاہدے کیسے طے کیے جائیں گے اس کے لیے طالبان کو ٹیکنوکریٹس کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے وہ موجودہ کابل حکومت سے مذاکرات کر یں گے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ طالبان دنیا کے سامنے اپنے آپ کو قبول کروانے کے لیے شریعت کی بجائے ایرانی ماڈل کی حکومت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جس میں ولایت فقیہ قسم کا ادارہ بنا کر طالبان اپنی مرضی کے الیکشن کروائیں گے اور اپنی مرضی کی حکومت لائیں گے جو بیرونی دنیا کے ساتھ مذاکرات بھی کرے گی اور کاروباری معاہدے بھی کرے گی۔
اگر طالبان اپنی سرحدوں سے باہر کوئی دہشت گردی کی کاروائی نہیں کرتے یا کسی دہشت گرد گروپ کی مدد نہیں کرتے تو بیرونی دنیا کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوگی کہ افغانستان میں انسانی حقوق کی کیا صورتحال ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ ان کی مالی امداد بند کردیں گے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ طالبان کی سب سے بڑی آمدنی منشیات سے حاصل ہوتی ہے لیکن امریکہ اور یورپی ممالک اس پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
ضمنی طور پر عرض ہے کہ پچھلے ہفتے پارلیمنٹ کے بند اجلاس میں پاکستان کی فوجی قیادت نے جو بریفنگ دی ہے اس میں ایک نقطہ یہ تھا کہ جب فوجی قیادت نے ارکان پارلیمنٹ کی رائے لی کہ اگر طالبان کابل پر قبضہ کر لیتے ہیں تو کیا ہمیں ان کی حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے تو بلاول بھٹو اور شہباز شریف نے کہا کہ نہیں۔ کیونکہ ترقی یافتہ ممالک اور عرب ممالک فوری طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
واشنگٹن سے شعیب عادل