رپورٹ : صدیق کاکڑ
افغانستان میں گذشتہ بیس سال سے ایک طرف جنگ جاری ہے وہی دوسری جانب جنگ زدہ ملک کے طول و عرض میں بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر و ترقی بھی ہوئی ہے، تاہم اکثر و بیشتر مختلف علاقوں میں سٹرک ، اسکول ، ہسپتال اور دیگر عمارتیں نشانہ بنتے ہیں ،لیکن امریکہ اور طالبان کے مابین دوحہ امن معاہدے کے بعد جہاں توقع کی جارہی تھی کہ بین الافغانی مذاکرات میں پرتشدد واقعات میں کمی آئے گی لیکن طالبان کی جانب سے فروری کے بعد سے اپنی کارروائیوں میں کافی اضافہ کیا گیا ہے ۔
طالبان کے حملوں اور افغان فورسز کے جوابی حملوں میں ایک طرف جہاں بڑے پیمانے پر دو طرفہ جانی نقصان ہورہا ہے وہی عام شہری بھی بڑی تعداد میں مارے جارہے ہیں ۔ طالبان کی جانب سے حالیہ کچھ ہفتوں کے دوران افغانستان کے متعدد علاقوں میں درجنوں پلوں کو بارودی مواد سے تباہ کرنے کے علاوہ ضلعی مرکزوں کے عمارت اور فورسز کے تعمیر کی گئی کیمپوں کو مسمار کیا گیا ہے ۔ ساتھ ہی فورسز سے چھینے گئے عسکری گاڑیوں کو بھی بھاری مشینری کے ذریعے پرزہ جات میں کرکے کباڑی کی صورت میں پاکستان منتقل کیا جارہا ہے ۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف جنوبی صوبے کندھار سے نیمروز کی جانب مرکزی شاہراہ کے 150 کلو میٹر میں واقع 21 چھوٹے بڑے پلوں کو گذشتہ ایک ماہ کے دوران طالبان نے تباہ کردیا ہے ۔ گوکہ گذشتہ ماہ ایران سے متصل صوبے فراہ میں ایک عمارت کو بارود سے اڑانے کے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس کی تحقیقات کرنے کا ایک مختصر بیان اپنے ٹویئٹر اکاونٹ سے جاری کیا تھا تاہم اب تک اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آیا ہے ۔
افغانستان کی حالات پہ نظر رکھنے والے متعدد تجزیہ نگار اس بات پہ متفق نظر آتے ہیں کہ طالبان نے حالیہ عرصے میں عام شہریوں کو اپنی جنگ میں اس لالچ پہ شامل کیا کہ کسی بھی ضلع یا شہر پہ حملے و قبضے کے بعد انھیں لوٹ ماری کی مکمل اجازت دی گئی ہے ۔ طالبان کے اسی لوٹ ماری والے واقعات کے افغان فضائیہ نے متعدد بار بمباری بھی کی ہے جس کے نتیجے میں درجنوں جنگجو مارے گئے ہیں ۔ صوبہ غزنی کے شہری حیات اللہ نے طالبان کی جانب سے فوجی گاڑیوں کو قبضے میں لینے کے بعد انھیں کباڑی کرکے پاکستانی ٹھیکیداروں کے ہاتھوں فروخت کرنے ایک انتہائی ناپسندیدہ عمل قرار دیتے ہوئے کہا اگر بالفرض اپنے آپ کو اس سرزمین اور وطن کے محافظ سمجھتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ اپنے وطن کی تباہی میں حصہ نہ بنیں۔
♣