چین نے امریکہ کو للکار دیا

پائندخان خروٹی

آج سے کئی سو سال پہلے فرانسیسی سپہ سالار نپولین بونا پارٹ کا چین سے متعلق پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہورہی ہے کہ
“China is a sleeping giant
۔ Let her sleep, for when she wakes up, she will shake the world۔
یعنی چین ایک سویا ہوا دیو ہے، اسے سونے دو کیونکہ اگر چائنا جاگ گیا تو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چینی عوام مارکسزم کے انقلابی نظریہ کی توسط سے طویل شعوری جدوجہد کے نتیجے میں آج واقعتاً جاگ چکے ہیں اور موجودہ سرمایہ دارانہ دنیا بھی ہلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ مفکر اعظم اور سرمایہ دارانہ نظام کے سرجن کارل مارکس نے بہت پہلے نشاندہی کی تھی کہ یورپ کے سر پر کمیونزم کا بھوت منڈلا رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں غالباً نیا سوشلسٹ سماج کی تعمیر کا وقت آپہنچا ہے۔ کمیونزم کی لٹکتی ہوئی تلوار کو دیکھ کر پہلی بار دنیا کی سیاست اور معیشت پر مسلط استحصالی اور سامراجی آقاؤں (بمعہ رجعتی عناصر کے) کو اپنا کردار گھٹتا ہوا نظر آتا ہے۔

حال ہی میں جی سیون ( امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان اور کینیڈا) ممالک اور بعدازاں نیٹو سربراہی اجلاس میں چین کے خلاف جو دھمکیاں سامنے آئی ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ چین کی حیرت انگیز ترقی اور چین روس باہمی اتحاد سے مغرب کی سامراجی قوتیں لرزاں بر اندام ہیں۔ دوسری جانب عوام اور حکومت پورے جوش و خروش کے ساتھ انقلاب کے 73 برس اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی سالگرہ (2021 – 1921) کی تقریبات منا رہے ہیں۔

اس موقع پر چینی صدر اور کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری زی جین پینگ اعتماد کے ساتھ مغربی حکمرانوں کی تمام دھمکیوں اور دھونس کو مسترد کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر مسلسل آگے بڑھتے رہنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ چئیرمین ماوزے تنگ کے بعد مضبوط ترین لیڈر یعنی موجودہ چینی صدر زی جین پینگ نے صد سالہ تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا کہ چین اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کسی بھی بین الاقوامی قوت کے دباؤ میں آنے کی بجائے ان کے سروں کو اسٹیل کی عظیم دیوار سے مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ
“Anyone who dares try to do that will have their heads bashed bloody against the Great Wall of Steel forged by over 1
۔4 billion Chinese people,”
انہوں نے امریکی ذرائع ابلاغ کے تمام منفی پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ چین کسی دباؤ کا شکار نہیں ہوگا اور سوشلزم کی تعمیر جاری رکھے گا۔ انہوں نے تیانانمن سکوئر پر کہا کہ چینی عوام اور کمیونسٹ پارٹی واضح یقین رکھتی ہیں کہ سوشلزم ہی چین کے مسقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے۔
“Only socialism can save China, and only socialism with Chinese characteristics can develop China,”
۔
واضح رہے کہ یہ دونوں جانب سے محض الفاظ کی جنگ نہیں ہے بلکہ انسانی تاریخ ایک نئے موڑ پر پہنچ گئی ہے اور فریقین کے درمیان دنیا کے نئے اور پرانے تصور کے مابین ایک حقیقی طویل جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ ایک جانب نوآبادیاتی باقیات انٹرنیشنل اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کیلئے کوشاں ہے اور دوسری طرف ایک نئے نسبتاً منصفانہ عالمی نظام کے علمبردار چین کی قیادت میں سرگرم عمل ہے۔ نئی صف بندی کا آغاز عراق کی جنگ سے ہوتا ہوا نظر آنے لگا تھا جو بعد میں یمن، فلسطین اور شام وغیرہ میں امریکی جارحانہ جنگوں کے بعد اب واضح شکل میں سامنے آگیا۔

چینی ،کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مناسبت سے شاندار تقریب میں انقلابی ترانہ کے ان مصرعوں کے ساتھ عوام نغمہ زن ہوکر جھومتے رہے اور اپنے عزم مصمم کا اظہار یوں کرتے رہے کہ
“Without the Communist Party There Would Be No New China”
۔
چینی صدر زی جین پینگ کا جارحانہ رویہ نہ تو اچانک ہے اور نہ ہی حیران کن۔ چین روز اول سے ایک طرف اپنی آزادی اور خودمختاری کا دفاع کر رہا ہے تو دوسری جانب ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ ملکر ایک نئے عالمی نظام کیلئے کوشاں ہے۔ واضح رہے کہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا کی قیادت میں قائم ہونے والا عالمی نظام زوال پذیر ہے۔ اور خود امریکہ واحد سپر پاور کی حیثیت سے عالمی معاملات میں اپنی برتری کھوتا جارہا ہے۔

تازہ ترین واقعہ نے انٹرنیشنل تضاد کو عروج پر پہنچا دیا، افغانستان میں امن قائم کئے بغیر اور مذہبی انتہا پسندی کی سرپرستی کو برقرار رکھتے ہوئے فوجی انخلاء کے فیصلے سے عدم استحکام اور انتشار مزید بڑھ گیا۔ یہ بات واضح ہے کہ دراصل امریکی حکمران چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی اپنی روایتی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور افغانستان سمیت خطے میں عدم استحکام برقرار رکھ کر چین اور روس کو روکنے اور ان کے انٹرنیشنل منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے ہر قسم کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ سماج سے سوشلسٹ سماج کی جانب ارتقائی سفر کا عمل مکمل ہو رہا ہے اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ترقی پذیر ملکوں کو وسائل پر قابض ہونے کی مختلف جنگوں کے نتائج ایک بات کا ثبوت ہے کہ تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلی امریکہ کے سمجھ سے باہر ہے۔ اب دنیا مذہب اور انتہا پسندی کے نام پر مزید بلیک میل ہونے اور مغرب کی اجارہ داری کو برقرار رکھنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ پاکستان میں یہ بات بہت دلچسپ اور حیران کن ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اخوانی، لاهور سینٹریک لفٹ اور دیوبندی اب کمیونسٹ چائنا کے گُن گانے لگے جو توجہ طلب ہے۔

سردست چائنا ارتقاء اور ترقی کے ایک عبوری مرحلے سے گزر رہا ہے جس کو قبل از سوشل ازم کا مرحلہ کہا جاسکتا ہے۔ ایک طرف اس میں اندرونی تضادات موجود ہیں اور دوسری جانب بیرونی سازشیں بھی جاری ہیں۔ اگر کمیونسٹ پارٹی آف چائنا نے موجودہ چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے موثر اور متوازن حکمت عملی نہ اختیار کی تو نتائج منفی بھی ہو سکتے ہیں اور سو سال کی پیچیدہ جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کردہ کامیابیاں ضائع بھی ہو سکتی ہیں۔

مثال کے طور پر مذہبی انتہاپسندی کا پیچیدہ مسئلہ سنجیدہ فیصلوں کا متقاضی ہے اور بالشویک انقلاب سے لیکر آج تک امریکی حکمران اور ان کے اتحادی سوشلسٹ اور ترقی پسند قوتوں کے مقابلے میں انتہائی رجعتی مذہبی جنونیوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایک بین الاقوامی قوت کی حیثیت سے امریکی کی پسپائی کے بعد چین اور روس کیلئے یہ سب سے بڑا چیلنج ہوگا اور اگر انہوں نے بھی مذہبی انتہا پسندی کے خلاف واضح حکمت عملی وضع نہ کی یا امریکی حکمرانوں کی طرح مذہبی انتہا پسندی کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں تو ان کی حیثیت بھی وہی ہوگی اور بالآخر انھیں بھی سامراجی حکمرانوں کیطرح پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔ انسان کو انسان کے ہاتھوں استحصال کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر قسم کی انتہاپسندی خاص طور پر مذہبی، جنونیت کو مٹانے کیلئے شعوری مگر پرولتاري جدوجہد کی جائے۔

پل پل بدلتی دنیا کے حوالے سے تمام معاشی و سیاسی طور پر مضبوط و مستحکم ممالک بالخصوص چین کا امتحان شروع ہو چکا ہے کہ وہ دنیابھر کے محکوم، مغلوب اور محروم اقوام اور طبقات کیلئے کیا کردار ادا کرتا ہے؟ معاشی غنڈوں کو عوامی رنگ میں بدلنے میں کس حد تک کامیاب ہوتا ہے؟ بظاہر روس چائنا اور ایران امریکی سرمایہ دارانہ نظام کی خاطر اپنی پالیسیاں بدلنے کی بجائے مزاحمت کى نئى صف بندی کیلئے سرگرم عمل ہیں اور یہی ایک نئے سوشلسٹ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

2 Comments