جبری شاپنگ

بصیر نوید

ابھی تک اپ لوگ جبری شادی، جبری گمشدگی، مذہب کی جبری تبدیلی، جبری جرمانے، جبری سزائیں وغیرہ سنتے آئے ہیں لیکن شاید جبری شاپنگ کا نہ سنا ہوگا جب حکومت آپ کو ایک اچھی خاصی رقم دے اور کہے کہ ایک مخصوص عرصے میں خریداری کرکے یہ رقم خرچ کرنی ہے ورنہ رقم سرکار واپس لے لیگی۔۔ ایسےخواب کو پاگل کا خواب ہی کہا جاسکتا ہے، اور اگر حقیقت میں یہ آپ کو بتایا جائے کہ آپکی حکومت نے ایسا فیصلہ کیا ہے تو آپ اپنی چٹکیاں کاٹیں گے کہ کہیں جاگتے خواب تو نہیں دیکھ رہا۔

حقیقت کچھ یوں ہے کہ ہانگ کانگ کی حکومت نے ایسا ہی اعلان کیا ہے بلکہ اس پر عمل کرنے کا آغاز بھی کردیا ہے۔ کورونا نے جسے کووڈ 19 کہا جاتا ہے ہانگ کانگ حکومت کو نئے نئے منصوبے بنانے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ جون 2020 میں حکومت نے لاک ڈاون، گرتی ہوئی معاشی صورت حال کے پیش نظر ہر بالغ فرد کو دس دس ہزار ہانگ کانگ ڈالرز تقسیم کئے تھے، شہریوں کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ جس خاندان میں چار افراد تھے انہیں 40 ہزار ڈالرز ملے اس طرح ایک خاندان میں جتنے افراد انہیں دس دس ہزار ڈالرز۔

لیکن حکومت نے دیکھا کہ مارکیٹ میں اس نوعیت کی سرکولیشن نہیں ہوئی جس کی حکومت کو توقع تھی یعنی رقم کا بڑا حصہ یوٹیلٹی بلز، کرائےاور سفری اخرات میں چلی گئی یعنی گورنمنٹ کو ہی ملی مگر یہ رقم توقع کے بر خلاف کاروباری سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ کرنے میں سودمند ثابت نہ ہوسکی۔

اس مرتبہ ایک نیا تجربہ کیا جارہا ہے جس میں ہر بالغ فرد کو 5 ہزار ہانگ کانگ ڈالرز تقسیم کئے جائیں گے اور اسکا واحد مقصد خریداری کرنا ہے، یعنی وہ خریداری جو بازار سے ہی کی جائے اور آن لائن بھی نہ ہو۔ جبر کا عنصر یہ ہے کہ حکومت تین قسطوں میں دے گی اور رقم کی مانیٹرنگ بھی ہوگی صرف وہی خریداری ہوگی جو حکومت کی متعین کردہ ہے تاکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دیا جائے۔ اس رقم کو اپنے اکاؤنٹ میں جمع نہیں کیا جاسکتا، بجلی، گیس، ٹیلیفون اور گورنمنٹ کے دیگر بلز یا ٹیکس یا اسکولوں یونیورسٹی کی فیس بھی ان پیسوں سے ادا نہیں کی جائیں گی، نیز سفری اخراجات بھی ادا نہیں ہوں گے ۔

ہاں البتہ درمیانے درجے یا چھوٹے ہوٹلوں میں کھانے کے بلز دئیے جاسکتے ہیں۔ کپڑے جوتے خریدے جاسکتے ہیں۔ البتہ گروسری یا مہینے کے راشن کیلئے فراوانی سے خرچ کی جاسکتی ہے، مگر مہینے میں کتنی گروسری؟ بظاہر تو یہ رقم بہت چھوٹی لگتی مگر اگر ایک خاندان میں اگر چار یا پانچ افراد ہوں تو ان کیلئے بہت مشکل ہوگا کہ سات مہینوں میں یہ رقم محدود شاپنگ کیلئے خرچ کی جائے۔ ہانگ کانگ کے شہری اس رقم اور ایسی شاپنگ کیلئے پر جوش ہیں۔

یہ رقم آکٹوپس کارڈز کے ذریعے اور مختلف ایپس کے ذریعے لی جاسکے گی۔ آکٹوپس کارڈ اصل میں ایسا کارڈ ہے جس میں پیسے بھر دیں اور کیش جیب میں رکھنے کی بجائے بس، ٹرین اور ٹیکسی کے علاؤہ شاپنگ کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ حکومت کے اس اقدام کو بہت سراہا جارہا ہے جس کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیوں خاص کر اوسط درجے کے بزنس کو فروغ ملے گا۔ اس ضمن میں حکومت نے چھوٹی چھوٹی دکانوں پر بھی پیسے وصول کرنے کی مشینیں پہنچادی ہیں کیونکہ رقم کی ادائیگی مختلف کارڈز اور ایپس کے ذریعے کیو آر کوڈز کے ذریعے ہوں گی۔

دنیا کا شاید یہ پہلا تجربہ ہے جس میں لذت آمیز جبر اور بے شمار فوائد بھی شامل ہیں۔

3 Comments