لیاقت علی
سنہ1970میں ہونے والے الیکشن پاکستان کی تاریخ کے وہ پہلے الیکشن تھے جو ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر ہوئے تھے۔ اس الیکشن سے قبل جتنے بھی الیکشن ہوئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر نہیں ہوئے تھے۔1970 کے الیکشن میں مغربی پاکستان کے شہروں میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے جو امیدوار میدان میں اتارے ان کی اکثریت اعلی تعلیم یافتہ، پروفیشنل اور طویل سیاسی جد وجہد کا ریکارڈ رکھتی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے لاہور سے اپنےجن کارکنوں اور رہنماوں کو ٹکٹ دیے ان میں ڈاکٹر مبشر حسن جو پیشے کے اعتبار سے انجئینر اور انجینرنگ یونیورسٹی کے استاد تھے، شیخ محمد رشید جن کی کسان تحریک سے طویل واسبتگی اور وکیل تھ، ملک معراج خالد جو قبل از قیام پاکستان سیاسی جدوجہد میں مصروف تھے،حنیف رامے جو معروف صحافی اور دانشور تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو جو پارٹی کے سربراہ اور بیرسٹر تھے، شامل تھے۔ منتخب ہونے کے بعد جب بھٹو نے لاہور کی نشست چھوڑی تو ضمنی الیکشن میں پارٹی نے میاں محمود علی قصوری کو ٹکٹ دی جو انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی جد وجہد کے حوالے سے عالمی شہرت کے حامل تھے۔
لائل پور حال فیصل آباد سے پیپلز پارٹی نے مختاررانا جو معروف لیبر لیڈر تھے کو راولپنڈی سے خورشید حسن میر اور ملک محمد جعفر جیسے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے وکلا کو قومی اسمبلی کاٹکٹ دیا تھا۔ کراچی سے عبدالحفیظ پیرزادہ پی پی پی کے امیدوار تھے۔ اسی طرح نیشنل عوامی پارٹی نے لاہور سے مزدور لیڈر مرزا ابراہیم جو محنت کش تحریک کے صف اول کے رہنما تھے کو اپنا امیدوار منتخب کیا تھا۔ اسی طرح حبیب جالب صوبائی نشست پر نیپ کے امیدوار تھے۔
دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں نے بھی اپنے جن امیدواروں کو مقابلے میں اتارا وہ بھی سیاسی طور پر آزمودہ کاراورپختہ سیاسی و سماجی شعور کے حامل تھے۔ لاہور سے جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری میاں طفیل محمد جن کا شمار جماعت اسلامی کے بانیوں میں ہوتا تھا۔ قومی اسمبلی کے امیدوار تھے اسی طرح مفتی محمود ڈیرہ اسماعیل خان سے بھٹو کے مقابل جمیعت کے امیدوار تھے۔ وہ قیام پاکستان سے قبل جمیعت العلمائے ہند کے پلیٹ فارم سے سیاست میں سرگرم عمل رہے تھے۔کراچی سے جماعت اسلامی پروفیسر غفور اور محمود اعظم فاروقی اورجمیعت العلمائے پاکستان کے شاہ احمد نوارانی جیسے درمیانے طبقے سیاسی کارکن شامل تھے۔
قوم پرست جماعتوں نے بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالحی بلوچ جو سب سے کم عمر رکن اسمبلی بنے تھے، عطا اللہ مینگل ، خیر بخش مری اور غوث بخش جیسے معروف اور طویل سیاسی جدوجہد کرنے رہنما الیکشن میں امیدوار بنے تھے۔
یہ سارے امیدوار بالغ سیاسی نظر کارکن اور سیاسی فہم و فراست کے حامل تھے ان میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو حادثاتی طور پر سیاست میں آیا ہو اور جو سیاست کو مالی منفعت کا ذریعہ سمجھتا ہو۔ یہ سب اپنے اپنے طور پر آئیڈیلسٹ تھے۔ ان کے نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی سیاسی کمٹمنٹ سے اختلاف کی گنجائش کم ہی تھی۔
سنہ 77 کے مارشل لا کے بعد پاکستان کی سیاست سے نظریات کا خاتمہ ہوچکا ہے اور درمیانے اور نچلے درمیانے طبقات سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کی جگہ پراپرٹی ڈیلرز نے لے لی ہےاور ہماری مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کی قیادت پرپر پراپرٹی ڈیلرز اور قبضہ مافیا براجمان ہے۔اس کا کریڈٹ بہرحال ضیا الحق کے گیارہ سالہ دور اور پھر ان کے غیر جماعتی الیکشن کو دینا چاہیے جنھوں نے سیاست میں ان افراد کو متعارف کرایا جو اقتدار میں آ کر پیسہ کمانے پر یقین رکھتے تھے ۔
الیکشن2018 میں میں سٹریم پارٹیوں نے شہروں کی حد تک جن افراد کو امیدوار منتخب کیا تھا ان کی اکثریت پراپرٹی ڈیلرز پر مشتمل ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 54 سے ن لیگ کے امیدوار انجم عقیل خان اسلام آباد کے معروف پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے پولیس فاونڈیشن کی زمین خرد برد کی تھی ۔ انھوں نے پلی بارگین کے تحت نیب کو چار بلین روپے ادا کیے ہیں۔ ان کے مخالف پیپلز پارٹی کے راجہ عمران اشرف بھی پنڈی اور اسلام آباد کے معروف پراپرٹی ڈیلرتھے۔ پنجاب اسمبلی کے حلقہ 13 سے تحریک انصاف کے امیدوار حاجی امجد ملک کی سب سے بڑی ہاوسنگ سکیم کے نائب صدر ہیں۔ کاغذات نامزدگی میں انھوں نے اپنی تعلیم انڈر میٹر ک لکھی تھی۔ ان کے خلاف زمین کی خرد برد اور دیگر الزامات پر مبنی آٹھ مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ان میں ایک مقدمہ ارادہ قتل کا بھی ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ 52 سے ن لیگ کے امیدوار ڈاکٹر فضل چوہدری، تحریک انصاف کے راجہ خرم نواز اور پیپلزپارٹی کے افضل کھوکھر تینوں پراپرٹی ڈیلرز ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 59 سے تحریک انصاف کے امیدوار غلام سرور خان اور ان کا خاندان پراپرٹی کے بزنس سے منسلک ہے۔ کاغذات نامزدگی میں انھوں نے اپنا بزنس سٹون کرشنگ اور سی این جی سٹیشنز بتایا تھا۔ان کے خلاف مختلف عدالتوں میں تین کیس زیر سماعت ہیں۔
قومی اسمبلی کے حلقہ 61سے ن لیگ کے امیدوار ملک ابرار پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ انھیں زمینوں پر غیر قانونی قبضے کے متعدد مقدمات کا سامنا ہے۔ وہ راولپنڈی کے ایک چرچ پر قبضہ کے مقدمے میں بھی ملوث ہیں۔فیصل آباد کے عابد شیر علی سابق وفاقی وزیر ہیں۔ انھوں نے بھی کاغذات نامزدگی میں اپنا بزنس ٹرانسپورٹ اور پراپرٹی بتایا ہے۔ فیصل آباد ہی کے راجہ ریاض جو پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں نے بھی اپنا بزنس پراپرٹی ڈیلر بتایا ہے۔
لاہور میں عبدالعلیم خان تحریک انصاف کی شناخت ہیں۔ ان کا شمار لاہور کے بڑے پراپرٹی ڈیلرز میں ہوتا ہے۔ ان کے خلاف کئی کیس اور نیب میں انکوائیریا ں زیر التوا ہیں۔ ن لیگ کے افضل کھوکھر، رانا مبشر اور تحریک انصاف کے اعجاز ڈیال لاہور سے قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں یہ سب پراپرٹی ڈیلرز ہیں۔
کوئٹہ سے پیپلز پار ٹی کے علی مدد جتک بھی بہت بڑے پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ جعلی ڈگری کے مقدمہ الیکشن میں حصہ لینے کے لئے نااہل ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی مالیاتی مرکز کراچی میں بھی یہی صورت حال ہے بلکہ بعض حوالوں سے بدترین ہے ۔ کراچی میں گذشتہ کچھ سالوں میں تیس ہزار ایکڑ اراضی کو مختلف پراپرٹی ٹائیکونز نے ڈویلپمنٹ کے نام پر ہڑپ کیا ہے اور اس مارا ماری میں سیاست دانوں نے مناسب حصہ وصول کیا ہے
♣