ڈاکٹر مبارک علی
ہر عہد کی تاریخ نویسی جداگانہ ہوتی ہے۔ وہ اپنے دور کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کا احاطہ کرتے ہوئے ان کو پیش کرتی ہے۔ تاریخ نویسی کا تعلق سماج کے طاقتور طبقے سے بھی ہوتا ہے۔
عام لوگوں کو وہ تاریخ باہر رکھتی ہے اور ان کے کردار کو فراموش کر دیتی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب جمہوری روایات نے عوام کو حقوق دیے تو تاریخ نویسی نے بھی اپنا دائرہ وسیع کر کے اس میں نچلے طبقوں کو شامل کر لیا۔ یورپ اور امریکا کے ابتدائی دور میں تعلیمی اداروں میں یونانی اور رومی تاریخ پڑھائی جاتی تھی۔ خاص طور سے رومی سلطنت کی سماجی و سیاسی تاریخ اور لاطینی زبان کا سیکھنا لازمی تھا۔ مقصد یہ تھا کہ نوجوانوں میں لیڈرشپ کے جذبات پیدا ہوں۔ لاطینی زبان کے ادب میں انہیں ورجل، جولیس سیزر اور سائیسیرو کی کتابوں کے اقتباسات پڑھائے جاتے تھے۔ رومی تاریخ اور لاطینی زبان موجودہ زمانے تک نصاب کا حصہ رہی۔
تاریخ نویسی میں اس وقت تبدیلی آئی، جب اسے قوم پرستی کے زیر اثر لکھا جانے لگا۔ امریکا میں خاص طور پر یورپ کی تاریخ کو اہمیت دی جانے لگی۔ جب قومی تاریخ لکھنے کی ابتداء ہوئی تو اس کے لئے ضروری تھا کہ تاریخ کے دائرے کو وسیع کیا جائے۔ لہٰذا کلچرل تاریخ نے تاریخ نویسی کو نئے موضوعات دیے۔
تاریخ نویسی میں فیمینسٹ نقطہ نظر
سن 1970ء کی دہائی میں تحریک نسواں نے تاریخ نویسی میں فیمینسٹ نقطہ نظر کو شامل کیا۔ جان سکاٹ نے ‘جینڈر اینڈ ہسٹری‘ لکھ کر تاریخ میں عورتوں کی شمولیت اور ان کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس دور میں لکھی جانے والی دو کتابیں بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں سے ایک پی تھامسن کی ‘دا میکنگ آف انگلش ورکنگ کلاس‘ اور دوسری البرٹ ماریس سبول کی ’ساں کلوٹ‘ ہیں۔ یہ دونوں کتابیں مارکسی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہیں لیکن انہوں نے معیشت کے بجائے کلچر کو اہمیت دیتے ہوئے مزدوروں اور عوام کی تاریخ لکھی ہے۔
تاریخ نویسی اور عالمگیریت
تاریخ نویسی میں انقلابی تبدیلی اس وقت آئی، جب اس میں عالمگیریت کے نقطہ نظر کو شامل کیا گیا۔ اگرچہ عالمگیریت کے لفظ کا استعمال 1990ء کی دہائی میں ہوا مگر اس کی مختلف شکلیں ماضی میں پائی جاتی ہیں، جیسے بدھ مت، یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی تبلیغ، جس میں مختلف اقوام کو ان مذہبوں میں شامل کر کے ان کو وسعت دی گئی۔ عالمگیریت کو ہم بڑی سلطنتوں کے قیام میں بھی دیکھتے ہیں، جیسے رومی سلطنت، عربوں کی فتوحات، عثمانی خلافت کا عروج اور یورپی سامراجوں کا پھیلاؤ۔ لیکن موجودہ دور میں جب سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا کی اقوام میں روابط اور رشتے بڑھے تو ان میں افہام و تفہیم پیدا ہوئی۔
dw.com/urdu