چین میں کمیونسٹ پارٹی کے 100 سال مکمل ہونے پر انتہائی شان و شوکت سے منائی جانے والی تقریبات میں دھوم دھام سے جشن منایا جارہا ہے اور آتش بازی کے مظاہرے ہو رہے ہیں اور وہ ایک ایسے چین کا مظہر ہیں جو تیزی سے ترقی کے زینے چڑھ رہا ہے اور سرمایہ دارنہ نظام کو اپنا رہا ہے لیکن اس کے قلب میں وہی بے لچک لیننسٹ نظام ہے۔
یہاں پر سوال ایک بار پھر یہیں اٹھتا ہے کہ کیا یہ جشن نظر کا دھوکہ ہے جو بظاہر یہ دکھاتا ہے کہ چین میں انفرادی طور پر لوگ زیادہ امیر ہوئے ہیں اور کروڑوں کی تعداد میں عام چینی شہریوں نے اپنے طرز زندگی کو تبدیل کیا ہے۔
یا یہ سب ایک ایسی حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ یہ خوشحالی اور یہ طاقت سب ایک ہی پارٹی کی گرفت میں ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور وہ اس طاقت کو صرف اپنے ہی لوگوں پر نہیں بلکہ باقی دنیا پر بھی استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں رکھتے۔
پاکستان اور بیرون ملک مقیم پاکستانی بائیں بازو کے کارکن بھی بہت شاداں و فرحان ہیں۔ وہ چین کی ترقی کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ ان کارکنوں سے پوچھا جائے کہ آپ کمیونزم کے حامی ہیں یا سرمایہ داری کے تو پھر آئیں بائیں شائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ چین کی معاشی ترقی کا آغاز ہی اس وقت ہوا تھا جب چینی قیادت نے ماؤ کی پالیسیوں کو تیاگ دیا اور سرمایہ داری نظام کو اختیار کیا ۔ سرمایہ داری نظام اپنانے کا مطلب یہی تھا کہ چین میں کمیونزم ناکام ہو گیا تھا۔
مگر چینی رہنما اتنے سیانے ہیں کہ سرمایہ داری بھی اختیار کر لی اور کمیونسٹ پارٹی کے نام پر ڈکٹیٹر شپ بھی قائم رکھی ہوئی ہے۔ چین کی جس ترقی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں وہ چینی عوام کے استحصال پر ہوئی ہے۔پوری دنیا کی کارپوریشنوں نے سستی لیبر کے لالچ میں وہاں کاروبار جمائے۔ چینی عوام بڑے پیمانے پر غربت اور استحصال کا شکار ہیں جو بھی اس استحصال کے خلاف آواز اٹھاتا ہے وہ دوبارہ نظر نہیں آتا۔جب برطانیہ یا مغربی ملکوں کی ترقی کی تعریف کی جائے تو یہی دانشور ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کی ترقی تیسری دنیا کے وسائل لوٹنے کی بدولت ہوئی ہے۔ اگر سرمایہ دارانہ پالیسیاں ہی کسی ملک کی ترقی کی ضامن ہیں تو پھر مغربی ممالک کو لعن طعن کیوں کرتے ہیں۔
چین ایک سرمایہ دار سامراجی ملک بن چکا ہے جوغریب ممالک کو سخت اور پھر مغربی سامراجی ممالک کے برعکس سخت اور مہنگی شرائط پر قرضہ بھی دیتا ہےاور واپس نہ ہونے کی صورت میں ان کے وسائل لوٹتا ہے۔ ممتاز ماہر معاشیات عاطف میاں نے لکھا ہے کہ چین نے سی پیک منصوبے کے تحت پاکستان کو جو قرضہ دیا ہے اس کی شرح سود ، عالمی مالیاتی اداروں کی نسبت نہ صرف زیادہ ہے اور بلکہ اس منصوبے کے تحت جو چائنا کی جو مشنری آرہی ہے اس میں بھی اوور انوائسنگ ہے۔ یعنی 80 ڈالر کی جگہ سو ڈالر چارج کیے جارہے ہیں۔