جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کے مطابق طالبان نے سات ہزار قیدیوں کی رہائی کے بدلے تین ماہ کی جنگ بندی کی پیشکش کردی۔ خبر کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب افغانستان میں عسکریت پسند گروپوں نے ملک بھر میں اپنی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، جمعرات کو طالبان نے تین ماہ کی فائر بندی کی پیشکش کی ہے مگر ساتھ ہی انہوں نے سات ہزار باغی قیدیوں کی رہائی کی شرط رکھی ہے۔پھر ڈوئچے ویلے نے ایک اور خبر دی ہے کہ افغان حکومت کے ایک سینیئر افسر کے مطابق علاقے کے بزرگ قبائلی رہنماؤں کی کوششوں سے جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ جنگ بندی صوبہ بادغیس کے قلعہ نو علاقے میں ہوئی ہے۔
درحقیقت جیسے ہی امریکی یا نیٹو افواج کا انخلا ہوا تو ذرائع ابلاغ میں طالبان کی فتوحات کی خبریں نشر ہونا شروع ہوگئیں۔چند دن میں ہی یہ بتایا کہ طالبان 85 فیصد حصے پر قابض ہوگئے ہیں۔ جس کے جواب میں پاکستان آرمی کے ایک غیر سرکاری ترجمان ایاز گل نے ٹویٹ کیا کہ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ طالبان کا یہ دعویٰ درست نہیں ہمارے خیال میں طالبان نے 45 سے 50 فیصد علاقے پر قبضہ کیا ہے۔ جس پر ٹوئٹر پر دلچسپ تبصرے ہوئے اور کہا گیا کہ اب طالبان کی مانیں یا ان کے مالکان کی۔
جنگ میں پراپیگنڈہ وار بھی بہت اہم ہوتی ہے۔ اور یہ جاری ہے۔یہ درست ہے کہ نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے کچھ حملے کیے اور چند ایک شہروں پرقبضہ بھی کیا اور کچھ سے تو قبضہ چھڑوا لیا گیا۔ طالبان نے نے علاقوں پر حملہ کرکے قبضہ کیا تھا اس کی ویڈیوز گھما گھما کر دکھائی گئیں اور بتایا گیا کہ طالبان افغانستان کو فتح کررہے ہیں۔
طالبان کی طرف سے تین ماہ کی جنگ بندی اور اپنے قیدیوں کی رہائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کے پاس ابھی مال و متاع خاتمے کے قریب ہے اور وہ فیس سیونگ کے لیے کچھ توقف بھی چاہتے ہیں اور عالمی دنیا کے سامنے یہ بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ دیکھیں ہم تو امن پسند ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کی فنڈنگ بالکل بند ہے۔ ان کے وسائل (جو کہ زیادہ تر منشیات کی آمدنی ہے) محدود ہیں۔ وہ ایک بڑی جنگ نہیں لڑ سکتے صرف گوریلہ جنگ جاری رکھیں گے ۔
امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے نمائندےنے امریکہ کے نیشنل پبلک ریڈیو ، این پی آر، سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہورہا ہے جبکہ سی آئی اے کا آپریشنل ہیڈکوارٹر بدستور کابل میں کام کرے گا اور وہ بدستور افغان آرمی کی مدد کررہا ہے۔
یاد رکھیں کہ افغانستان کے 34 صوبے اور 421 اضلاع ہیں جن میں کسی بھی صوبے پر ابھی تک ان کا مکمل قبضہ نہیں ہوا بلکہ کچھ اضلاع پر قبضہ ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ میں گھما پھرا کر ایک ہی قسم کی ویڈیوز دکھائی جارہی ہیں۔
محمد شعیب عادل