اسلم ملک
ہمارے ہاں قریباً ہر شاعرہ پر کسی نہ کسی سے لکھوانے کا الزام لگ جاتا ہے، خواہ شاعری محض قافیہ پیمائی ہی کیوں نہ ہو، جو ذرا سا زور لگا کر کوئی بھی کرسکتا ہے۔
شاعرہ شکل صورت کی بھی اچھی ہو تو اسے ہر“استاد” اور اس کے شاگرد گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکامی پر اس پر استاد سے لکھوانے کا پروپیگنڈا شروع کردیتے ہیں۔ پھر ہمہ دانی کے دعویدار بہت سے لوگ جب کسی کے کان میں یہ “راز” انڈیلتے ہیں تو یہ کانوں کان سینکڑوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اکثریت کو اپنی اس بے بنیاد معلومات پر پورا یقین ہوتا ہے۔
چند ہفتے قبل قاسمی صاحب کا ذکر کیا تو ایک صاحب نے کمنٹ کیا، پروین شاکر کو یہی لکھ کر دیتے تھے۔ حالانکہ پروین شاکر کالج کے زمانے سے شعر کہہ رہی تھیں، ریڈیو پاکستان کے پروگرام بزم طلباء اور بین الکلیاتی مقابلوں کی معروف شاعرہ تھیں۔ قاسمی صاحب کے رسالے “فنون” کیلئے کلام بھیجنے کا اعتماد تو بہت بعد میں پیدا ہوا جب وہ اپنی طرز بنا چکی تھی۔ قاسمی صاحب تب پروین شاکر کے نام سے واقف ہوئے۔ خوشبو کے ناشر سے رابطہ یقیناً انہوں نے کرایا ہوگا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ پروین شاکر پر لکھوانے اور قاسمی صاحب پر لکھ کر دینے کا الزام لگانے والے گروپ کے افراد سے میں نے یہ بھی سنا کہ قاسمی سے تو پروین شاکر ہی اچھی شاعرہ ہے۔
ایک دوست نے کہا، قاسمی نہیں تو افتخار عارف سے لکھواتی ہوں گی۔ ایک تو یہ کہ پروین شاکر جب شاعرہ بن رہی تھیں تو میرا خیال ہے کہ افتخار عارف پاکستان سے باہر تھے اور دوسری بات یہ کہ پروین شاکر نے جو کچھ کہا، وہ قاسمی صاحب یا افتخار عارف صاحب کہہ ہی نہیں سکتے۔
قاسمی صاحب کے بارے میں پوسٹ سے نوشی گیلانی اور مرتضیٰ برلاس کا دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ بعض اصحاب انہیں بھی گھسیٹ لائے۔
نوشی گیلانی نے یوں سمجھیں میرے سامنے شاعری شروع کی۔ سترہ اٹھارہ سال کی ہوگی جب اس کی نیم پختہ شاعری نظر سے گزری۔ منور جمیل قریشی اور پھر ظہور نظر سے اصلاح لیتی رہی۔ اصلاح شدہ آدھی نیلی اور آدھی سرخ غزلیں بھی دیکھیں۔ ان ابتدائی غزلوں میں سے پہلی ایک دو میرے توسط سے ہی “امروز” کے ادبی ایڈیشن میں چھپیں۔
شاعروں کی گروہ بندی ہر جگہ ہوتی ہے۔ مخالف دھڑے نے پروپیگنڈا شروع کردیا۔مرتضیٰ برلاس شاعر تھے، خانیوال میں رہے تو وہاں ان کی سرپرستی میں یادگار ادبی محافل ہوئیں۔ کمشنر بن کر بہاولپور آئے تو وہاں ادبی سرگرمیاں تیز ہوگئیں۔ دس بارہ سال میں نوشی گیلانی اپنے آپ کو شاعرہ منوا چکی تھیں۔ دوسرے شاعروں کی طرح ان کا بھی کمشنر سے ملنا جلنا ہوتا۔ مخالفین نے سکینڈل بنا کر شہر کی دیواروں پر چاکنگ کرادی۔ مولویوں سے خلاف تقریریں کروا دیں۔
اس سارے عرصے میں، میں بہاولپور نہیں تھا۔
مرتضیٰ برلاس کی اہلیہ پنڈی ریڈیو کی آرٹسٹ تھیں، شوق کی وجہ سے بہاولپور ریڈیو سے بھی پروگرام کرتی رہیں۔ ریڈیو پر ان کی بتول رحمانی سے دوستی ہوئی جو میری اہلیہ کی پرانی دوست تھیں۔ اس طرح برلاس صاحب کی بیگم فریدہ عباسی کی میری بیوی سے بھی دوستی ہوگئی۔ برلاس صاحب ریٹائرڈ ہوکر ایک 5 مرلے کے مکان میں لاہور آگئے۔ یہاں مسز برلاس اور میری بیوی کا ملنا جلنا بہت بڑھ گیا۔ ظاہر ہے کسی شخص کے ایسے تعلقات کی سب سے زیادہ فکر اس کی بیوی کو ہوتی ہے۔ پھر کمشنر کی بیوی جسے بیسیوں رضا کار مخبر بھی میسر ہوتے ہیں۔
سو میں نے یہ سوچ کر کہ سچے یا جھوٹے پروپیگنڈے سے فریدہ پریشان تو رہی ہوں گی، اپنی بیوی سے پوچھا کہ فریدہ سے کبھی نوشی کا ذکر ہوا۔۔۔۔ تو انہوں نے بتایا کہ مسز برلاس کو ایسا ذرا بھی شک نہیں۔ نوشی کا اچھے لفظوں میں ذکر کرتی ہیں۔ ایک لطیفہ بھی سنایا کہ برلاس صاحب ایک مشاعرے میں کراچی گئے۔ پہلے شور مچایا گیا کہ ایک شاعرہ ہوٹل میں ان کے کمرے میں ساتھ رہ رہی ہے۔ پھر شاعرہ کی جگہ نوشی گیلانی کردیا گیا۔۔۔ حقیقت یہ تھی کہ میں، یعنی ان کی منکوحہ ساتھ گئی تھی۔
♠