حسن مجتبیٰ
اس نے کہا “ میری عمر 75 سال ہے لیکن جوکشت و خون اور قتل و غارت افغانستان میں آجکل ہو رہا ہے وہ میں نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا”۔ یہ افغان نثراد امریکی جلاوطن شیر آغا ہیں جو امریکہ میں رہتے ہوئے افغانستان اور پاکستان میں رہتے ہیں۔ وہ اور انکے اہل خانہ اب امریکی شہری ہیں اس شخص کی روح یا اسکا دل اب بھی افغانستان اور پاکستان میں بھٹک رہے ہیں۔
پاکستان جہاں اسکے والد اور دو بھائی گذشتہ پچاس برسوں سے غائب ہو کر آج تک گمشدہ ہیں ۔ وہ زندہ ہیں کہ مردہ اسے اس کی کوئی خبر نہیں۔
آدھی صدی گذر گئی لیکن انکے والد اور انکے بھائیوں کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا! انکے والد اور بھائی بھی ان بیالیس نامور اور اہم افغان شخصیات میں سے تھے جن کو اور کسے کی نہیں فوجی آمر جنرل ضیا الحق کی فوجی آمرانہ حکومت نے غائب کردیا تھا۔ ان غائب شدہ بیالیس افغان جلاوطن شخصیات میں پروفیسر تھے، اساتذہ تھے، صحافی اور شاعر تھے، انجنیئر تھے، فوجی افسر تھے، سابق اراکین پارلیمان تھے۔ یہ زیادہ تر افغان اشرافیہ تھی۔ لبرل،افغان قوم پرست اور ایک سوشل کلاس۔
ان میں سے کئی کا تعلق ظاہر شاہ کی سلطنت سے تھا تو کئی سردار داؤد کے قریب تھے۔ یہ مگر اپنی دھرتی اور قوم افغانیہ سے محبت کرنے والے لوگ تھے۔ اس زمانے میں ہر نوجوان پر دو سال فوج میں نوکری کرنا لازمی تھی۔ اسی طرح شیر آغا کا والد نور عالم مظلوم یار اور اسکے بھائی احمد اسیر اور ایک اور بھائی بھی افغانستان کی جانی پہچانی شخصیات تھیں۔
نور عالم مظلوم یار ظاہر شاہ کی پارلیمان کا رکن تھا جب کرزئی کا والد عبداللہ کرزئی بھی رکن پارلیمان تھا۔ مجھے شیر آغا بتا رہے تھے کہ “عبداللہ کرزئی امرا کی مخصوص نشست جبکہ میرا والد عوام کے ووٹوں سے جیت کر آیا تھا۔ُ” انکا بڑا بھائی بھی پارلیمان کا رکن تھا جب سردار داؤد کا تختہ جنرل عبدالقادر ڈگروال کی سربراہی میں کمیونسٹ فوجی بغاوت کے ذریعے الٹا گیا اور نور محمد ترہ کئی اب افغانستان کا صدر تھا۔ تب بھی شیر آغا اور اسکے والدین باقی کئی ایسے متمول افغان کنبوں کے برعکس افغانستان سے نقل وطنی نہیں کر گئے۔ لیکن شیر آغا کہتے ہیں “کمیونسٹ آئے تب بھی بات اتنی خراب نہیں ہوئی تھی۔ حالت تب سے مخدوش ہونا شروع ہوئے جب دسمبر 1980 میں سابقہ سوویت یونین جسے غلط عام میں روس کہا جاتا ہے نے افغانستان میں مداخلت کی۔
میرے والد اور بھائیوں کو ہم نے بہت روکا کہ پاکستان مت جاؤ لیکن وہ پاکستان چلے گئے تب سے آج تک انکا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ ہم نے انہیں ہر جگہ تلاش کیا۔ لیکن ضیا الحق اور اسکی ایجنسیوں کے ہاتھوں غائب کیےگئے ان بیالیس افغان اہم شخصیات کی آج تک نہ کوئی بات کرتا ہے نہ کوئی ان کے متعلق بتاتا ہے۔ نور عالم مظلوم یار ان ان چوالیس نامور افغان شخصیات جو کہ مہاجر بن کر پاکستان آئے تھے جو نہ مجاہدین تھے نہ بنیاد پرست بلکہ اعتدال پسند، پڑھے لکھے، روشن خیال، لبرل، قومپرست، وطن پرست افغان تھے انکو ضیا الحق کی ایجنسیوں سے غائب کروا دیا تھا یا ختم کروایا تھا۔
شیر آغا اپنی اہلیہ کے ساتھ نقل وطنی کر کے پاکستان آئے اور انہیں حسن ابدال میں ایک چودھری فیملی نے پناہ دی۔ وہیں اانکے بچے پیدا ہوئے۔ اور وہیں حسن ابدال میں ہی انکی تعلیم ہوئی۔ شیر آغا کو اب بھی یاد ہے کہ اس چودھری فیملی کا حسن ابدال میں ایک سینما ہوا کرتا تھا۔
شیر آغا کے پاس آج بھی فارسی میں انکا لکھا ہوا خط موجود ہے جو انہوں نے مجاہدین کے سربراہ گلبدین حکمت یار کو لکھا تھا کہ وہ انکے والد اور بھائیوں کی کی تلاش میں انکی مدد کرے اور ضیا الحق سے گہرے تعلقات کی بنا پر وہ انکے والد اور بھائیوں کا پتہ کروا سکتا ہے۔
پھر کئی دنوں بعد، شیر آغا مجھے بتاتے ہیں کہ انکی والدہ نے گلبدین حکمت یار کو کہا تھا کہ “تم ہی میرے شوہر اور بیٹوں کی گمشدگی کے ذمہ دار ہو۔ اور تمہیں سب پتہ ہے کہ وہ کہاں گئے اور انکے ساتھ کیا ہوا”۔ اس پر گلبدین حکمت یار نے قرآن منگوایا تھا اور اس پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا وہ قسم کھا کر کہتا ہے کہ اس بارے اسے کچھ معلوم نہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا۔ گلبدین حکمت یار ہی ساٹھ ہزار افغانوں کا قاتل ہے۔
مجھے حیرت ہوئی کہ جب پاکستان سے ایشیا کے بدترین فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کے منحرفین و مخالفین پھر بھٹو برادران تھے کہ انکے کئی ساتھی اور کارکن یا پشتون بلوچ سندھی قوم پرست اور لڑاکا کار افغانستان میں کمیونسٹ حکومت یا اس سے بھی بہت عرصہ قبل پناہ لیے ہوئے تھے تو روسی مداخلت کے دوران یا اس سے قبل کمیونسٹ حکومت کیخلاف منحرفین مگر افغان لبرلز تھے قوم پرست یا وطن پرست پڑ ھے لکھے جلا وطن ہو کر سرحد پار پاکستان آئے تھے تو انکی ایک کریم جنرل ضیاالحق کے حکم اور اسکی جاسوسی ایجنسیو ں کے ہاتھوں غائب کردی گئی اور آجتک غائب ہیں۔ُیہ اور یہ لوگ غیر مسلح شریف امن پسند لوگ تھے۔
اسی طرح شیر آغا بھی کابل یونیورسٹی میں ادب کے استاد تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جس زمانے میں وہ کابل یو نیورسٹی میں پڑھا رہے تھے تو اس زمانے میں سابق مقتول افغان صدر نجیب اللہ بھی پڑھ رہے تھے لیکن وہ طب کے شعبے میں تھے اور شیر آغا ادب میں۔ پھر اسوقت بھی شیر آغا کابل میں تھے اسی جگہ تھے جہاں طالبان نے نجیب اللہ کو اسکے بھائی سمیت اقوام متحدہ میں پناہ لیے ہونے کے باوجود یو این کی عمارت سے باہر نکالا تھا اور انکی اور انکی بھائی کی لاشیں لٹکا دی تھی جسے دیکھنے کو بڑا ہجوم جمع تھا۔ بقول شیر آغا کے اس میں نجیب اللہ کے وہ کامریڈ بھی تھے جنہیں میں جانتا تھا اور وہ انتہائی تاسف سے سر جھکائے اس مجمع عام میں کھڑے تھے اور خوف و دہشت، بے بسی انکے چہروں سے عیاں تھی۔
پھر وہ ان دنوں کے کابل میں کھو گیا جب اسکا مواز نہ یا مقابلہ رضا شاہ پہلوی کے ایران سے تو کیا جاتا تھا لیکن اس کابل شہر کو امریکہ ثانی یا سیکنڈ امیریکا کہا جاتا تھا۔ شیر آغا کو اب بھی یاد ہے جب اس نے کابل کے شاہی محل میں ظاہر شاہ کے دنوں میں وہاں مدعو کی ہوئی مشہور عالم مغنیہ ایرانی خانم گگوش کو رو بہ رو سنا تھا:۔
من آمد ام من وی وی
عشق فریاد کند”
من آمد ام کہ ناز بنیاد کند
حسن درس سمیت میری نسل کو تو خانم گگوش سے اک “آبسیشن” (اس انگریزی لفظ کا اردو اور سندھی میں نعم البدل شاید ہی کوئی ہو) تھی۔
میں نے شیر آغا کو بتایا کہ خمینی کی سفاک ملا رجیم اور پاسدارن کے ہاتھوں قتل کی افواہوں کے کئی سال بعد آج سے دو دہائیاں قبل لاس اینجلس میں خانم گگوش کا بہت بڑا کنسرٹ ہوا تھا۔ لاس اینجلس میں تو اتنے ایرانی جلاوطن اور تارکین وطن ہیں کہ اسے کہتے ہی لاسٹ تہران ہیں۔
شیر آغا کو یاد ہے کہ وہ اپنی طالب علمی کے دنوں میں کابل یونیورسٹی میں باچا خان عبدالغفار خان کو متعدد بار دیکھتے رہے تھے جہاں وہ یوم پختونستان میں خاص مہمان کے طور مدعو وہا کرتے تھے۔آخر کار بابا جلال آباد میں ہی آرامی ہے،اس نے کہا۔
شیر آغا کہہ رہے تھے میں پاکستان نہیں آتا لیکن روسیوں کے آنے کے بعد رہنا محال ہوگیا تھا اور پھر اپنی ماں کی خوشی کیلے مجھے پاکستان آنا پڑا کہ جہاں میں حسن ابدال میں ایک چودھری فیملی کے زیر پناہ کئی سال رہا تھا۔ ہندی اور پاکستانی فلمیں دیکھی اور فلموں کے گانے اور انکے متعلق میرے بچوں نے پاکستان میں ہی سیکھا”۔
شیر آغا نے پھر کئی ملکوں میں وطن بدری کرتے آخر کار امریکہ کو ہی اپنا اختیار کردہ وطن بنایا۔ جہاں وہ اب اپنے تین بیٹوں کیساتھ نیویارک کی ایک متمول مڈل کلاس آبادی میں رہتا ہے۔ لیکن وہ ایک سال یا دوسرے افغانستان جاتا رہا ہے۔ کئی دفعہ افغان امریکی ترجمان کی حیثیت سے افغانستان گئے ۔ شیر آغا بھی گیا لیکن پھر وہ بھاگ کر واپس آگیا۔ میں لو پروفائیل رہنا چاہتا تھا۔ اور اسی طرح اپنے اصل وطن افغانستان آتا جاتا رہا تھا۔
شیر آغا جن کاجنم تعلق کابل کے نزدیکی صوبے وردگ سے ہے وہاں انکا باغ اور آبائی زمینیں ہیں۔طالبان انکی زمینوں سے بھتہ لیتے رہتے تھے۔ اور اب انکی زمین سنبھالنے والے انکے ملازمین نے انکو اطلاع دی ہے کہ طالبان انکی زمین میں حصہ چاہتے ہیں۔میں نے خراب وقتوں میں بھی اس سے پہلے زمین نہ ہی کسی کے حوالے کی نہ فروخت کہ ہم افغان زمین کو اپنے پرکھوں کی ہڈیوں کا مدفن سمجھتے ہیں۔ شیر آغا کہہ رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ امسال گذشتہ عید قربان پر انہوں نے ہر سال کی طرح اپنے والدین کے آثار کیلیے کچھ رقم قربانی کے لیے اپنے گھر وردگ ملازمین کو بھیجی تھی کہ طالبان آئے اور زبردستی پانچ سو امریکی ڈالر ان سے ہتھیا کر لے گئے۔ طالبان نے انکے ملازمین سے کہا قربانی کی رقم کے وہ سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اور افغانستان حالت جنگ میں ہیں۔ پھر انہوں نے احادیث و دیگر دینی کتب کے کئی حوالے دیے کہ جن کی رو سے یہ امریکی پانچ سو ڈالر کی رقم انکے حوالے کی جائے۔
شیر آغا نے میرے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اگرچہ طالبان کی اکثریت پشتو بولنے والوں پر مشتمل ہے لیکن ان میں “اردو” بولنے والے بھی شامل ہیں۔ میں نے تعجب سے پوچھا “اردو؟” وہ تو میں نے نرمی سے کہا لیکن میرا مطلب تھا کہ پنجابی بولنے والے بھی طالبان میں ہے۔ پھر شیر آغا جیش محمد سمیت کئی شدت پسند تنظیموں کے نام لینے لگا۔
شیر آغا کی آنکھیں بھر آتی تھیں جب کہتا تھا اب ہم پر وہاں پہنچ گئے جہاں سے روس نے اسی طرح افغانستان چھوڑا تھا۔اب اس کی کیا گارنٹی ہے کہ طالبان داعش اور القائدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی میزبانی نہیں کرے گا؟
اسکا جواب شیر آغا کے پاس بھی نہیں تھا۔
پھر اس نے کہا “کچھ بھی کہیں لیکن طالبان بہادر ضرور ہیں۔ ظالم اور بہادر۔ داعش کی طرح انہوں نے بھی بیس ہزار لڑکیوں کو اغوا کرلیا ہے جن کو “طالبان کی اسلامی دلہنیں بنانا مقصود ہے۔ بے شمار لوگ قتل ہو رہے ہیں۔ اتنے لوگ جتنے اس سے قبل اتنے شب و روز میں کبھی قتل نہیں ہوئے۔ رات ہوتے ہی قتل عام روزانہ کی بنیاد پر ہورہا ہے۔
پھر وہ ایک لمبے توقف تک خاموش ہوگیا اور خلا میں گھورنے لگا۔ نیویارک کے آسمان میں جہاں بحر اوقیانوس کی ہواؤں کے ساتھ ٹوٹ کر بارش برسنے لگی تھی۔
♠