بیرسٹر حمید باشانی
افغانستان کے بارے میں اس وقت کئی کانسپیریسی تھیوریاں گردش کر رہی ہیں۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ طالبان کی یک دم اور حیرت انگیز پیش قدمی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اور امریکیوں کے درمیان خفیہ ڈیل ہو چکی تھی۔ اس تھیوری کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے، تو بہت سارے حقائق سامنے آتے ہیں، جن کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
طالبان اور امریکہ کے درمیان محبت و نفرت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ تاریخ ایک نہیں کئی “ڈیلز” کی گواہ ہے۔ جب امریکہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی لڑ رہا تھا توہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ “یاد رکھیں، جن لوگوں سے آج ہم لڑ رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں، جن کو ہم نے بیس سال پہلے پیسے دئیے اور پالا پوسا۔ ہم نے ایسا اس لیے کیا کہ ہم سوویت یونین کے خلاف جدو جہد میں پھنسے ہوئے تھے۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا۔ ہم ان کو سنٹرل ایشیا کو کنٹرول کرتے ہوئیے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔
صدر ریگن نے کہا یہ اچھا موقع ہے۔ آئیں آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج سے بات کرتے ہیں۔ کانگرس کا اس بات پر اتفاق تھا، جس کی قیادت اس وقت ڈیموکریٹ کر رہے تھے ۔ ہم نے کہا آئیں چل کر مجاہدین کو بھرتی کرتے ہیں۔ سعودی عرب اور دوسری جگہوں سے مجاہدین لاتے ہیں۔ عربوں کا وہابی برانڈ کا اسلام برآمد کرتے ہیں، اور سوویت یونین کو شکست دیتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے کام شروع کیا، اور سوویت یونین پسپا ہو گیا۔ ان کے کھربوں ڈالر ضائع ہو گے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سوویت یونین ٹوٹنے کی راہ ہموار ہوئی۔
دیکھا جائےتو یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔ لیکن ہمیں محتاط ہونا چاہیے، چونکہ جو بیج ہم بو رہے تھے ،اس کی فصل ہمیں کاٹنی پڑے گی۔ بہرحال اس کے بعد ہم نے پاکستان چھوڑ دیا۔ ہم نے ان کو کہا تم اب سٹنگرز سے ڈیل کرو، جو ہم نے ہر جگہ چھوڑے ہیں۔ تم ان بارودی سرنگوں کا بندوبست کرو جو ہم نے سرحدوں پر بچھائی ہیں۔ اور ہم نے ان کو بتایا کہ ہم آپ سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے، در حقیقت ہم آپ پر پابندی لگا رہے ہیں۔ اس طرح ہم نے پاکستان سے ڈیل کرنا چھوڑ دیا۔ اور اب ہم نے اس وقت جو وقت برباد کیا اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسا رشتہ تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کاکوئی وجود ہی نہیں تھا، ہمارے درمیان اعتماد اور بھروسے کی کمی ہے۔ جزوی طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ کہ ہم ایک ایسے مسئلے کے خلاف لڑ رہے ہیں، جو ہم نے خود پیدا کیا ہے“۔
ایک اور انٹرویو میں اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ہیلری کلنٹن نے کہا کہ “جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہمارے ذہن میں یہ شاندار خیال آیا کہ ہم پاکستان میں جائیں گے، اور مجاہدین کی ایک فورس کھڑی کریں گے۔ ان کو سٹنگر میزائل اور دوسرے ہتھیاروں سے مسلح کریں گے۔ اور افغانستان کے اندر سوویت یونین کے خلاف لڑیں گے۔ ہم اس میں کامیاب ہوئے۔ سوویت یونین افغانستان سے نکل گیا۔ اور پھر ہم نے خطے کو الوداع کہا۔ ہم نے افغانستان اور پاکستان میں انتہا پسند لوگوں کو کھلا چھوڑ دیا۔ یہ لوگ ہتھیاروں سے لیس تھے۔ اس طرح ہم نے ایسا ” میس” پیدا کر دیا، جس کا اس وقت ہم احساس نہ کر سکے۔ ہم سوویت یونین کے ٹوٹنے پر خوش تھے۔ ہم نے سمجھا اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اب آپ واپس مڑ کر دیکھیں، جن لوگوں سے ہم لڑ رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں، جن کی ہم نے سوویت یونین کے خلاف لڑائی میں مالی مدد کی” ۔
مس کلنٹن کے یہ الفاظ ان وڈیو کلپس میں محفوظ ہیں، جو امریکی آر کائیو کے علاوہ دنیا بھر کے میڈیا ہاوسز کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ اور آج کل سوشل میڈیا کی برکات کی وجہ سے انٹر نیٹ پر بھی گردش کر رہے ہیں، اور عام آدمی کی پہنچ میں ہیں۔ میں نے ہیلری کلنٹن کے ان بیانات کا لفظ با لفظ ترجمہ نہیں کیا، بلکہ صرف مفہوم بیان کیا ہے ۔ یہ الفاظ اتنے واضح سادہ ، اور واشگاف ہیں کہ ان میں غلطی یا غلط فہمی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
ہیلری کلنٹن امریکہ کے طاقت ور اور با اثر حکمران اشرافیہ کا حصہ رہی ہیں۔ ان کے دور اقتدار میں اور اس کے بعد بھی اس طرح کے نازک معاملات پر ان کے بیانات کو امریکی اسٹبلشمنٹ کے خیالات سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن اگر حفظ ما تقدم کے طور پر تھوڑی سے مزید تحقیق کی جائے تو مس کلنٹن کے ساتھ ساتھ درجنوں دوسرے طاقت ور امریکی سیاست دانوں اور سرکاری اہل کاروں کے تفصیلی بیانات مل جاتے ہیں، جو ان کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس پر درجنوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ کئی دستاویزات منظر عام پر آ چکی ہیں، جو اس وقت خفیہ اور کلاسیفائڈ تصور کی جاتیں تھی۔
ہیلری کلنٹن گو سرگرم سیاست سے کنارہ کش ہیں۔ امریکہ میں کئی نئے چہرے اب ان معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جو ہیلری کے دور میں فیصلہ ساز لوگوں میں شامل تھے، اور آج بھی معاملات کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہے۔ ان میں خود جو بائیڈن سر فہرست ہیں۔ اورجو بائیڈن کی قیادت میں ہی امریکہ آج ان مجاہدین کے ساتھ معاملہ کرنے پر مجبور ہے، جن کو بقول ہیلری امریکی چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں ، جنہوں نے حال ہی میں کابل میں امریکی امداد سے تعینات حکومت کے بے دخلی کے بعد ملک کا بندوبست اپنے ہاتھوں میں لیا ہے۔ اور اب وہ بالکل ایک نئی حیثیت میں امریکہ سے ڈیل کر رہے ہیں۔
لیکن امریکہ کے ساتھ ان کی ڈیل کی تاریخ پرانی ہے۔ اس میں وہ تاریخ بھی شامل ہے، جس کا ذکر مس کلنٹن نے کیا ہے۔ پھر وہ ایک نئی حیثیت میں سامنے آئیے، جب سن انیس سو چھانویں میں کابل کا اقتدار ان کے ہاتھوں میں آیا ۔ مگراس وقت امریکہ کے ساتھ ان کا نفرت و محبت کا رشتہ ایک کھلی جنگ کی شکل اختیار کر گیا۔ اور ایسا وقت آیا کہ ان پر ہزاروں بم برسائے گے۔ ان کا وسیع پیمانے پر خون بہایا گیا۔ ان کو سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار کیا گیا، اور گوانتانوموبے جیسے عقوبت خانوں میں تشدد اور ایذا رسانی کا شکار ہوئے۔
سنہ2010 کے بعد اس نفرت اور محبت کے رشتے نے ایک نیا موڑ لیا، جب ان کے ساتھ بات چیت کا خفیہ عمل شروع ہوا۔ یہ خفیہ عمل آگے چل کر ایک کھلے تعلق کی شکل اختیار کر گیا، جب کھلے عام طالبان اور امریکہ کے درمیان مزا کراتی عمل کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں دوحہ معاہدہ سامنے آیا۔ اس کے بعد جو واقعات رونما ہوئیے، وہ دنیا بھر کی خبروں میں نمایاں رہے اور سب لوگ ان سے آگاہ ہیں۔ امریکی پر اسرار طریقے سےافغانستان سے نکل گئے۔ طالبان نےاسی پر اسرار طریقے سے ملک کا کنٹرول حاصل کر لیا۔
اس وقت وہاں حکومت سازی کا عمل جاری ہے۔ مگر اس بات کا یہ نتیجہ نکالنا مناسب نہیں ہوگا کہ امریکہ طالبان یا افغانستان سے لاتعلق ہو گیا ہے۔ طالبان اور امریکہ کا یہ محبت اور نفرت کا رشتہ ختم نہیں ہوا، بلکہ اس نے ایک نیا موڑ لیا ہے۔ اس وقت افغانستان اور طالبان کو لیکر خطے میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ اس سلسلہ عمل کی تکمیل کے بعد یہ بات واضح ہو گی کہ طالبان کی دوبارہ آمد میں امریکہ کا کیا کردار تھا، اور مستقبل میں ان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی۔
♥