لیاقت علی
وہ قیام پاکستان سے کم وبیش 11 سال قبل اندورن ٹکسالی گیٹ لاہور کے بالمیکی محلے میں پیداہوا تھا۔ والدین نے اس کا نام انو چند رکھا تھا۔ انو چند کا خاندان مذہباً بالمیکی تھا۔ بالمیکی یا والمیکی 5 ویں صدی قبل از مسیح کےایک شاعر اور دانشور بالمیک کو اپنا رہبر گورو اور دیوتا مانتے ہیں ۔
بالمیک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہندو مذہب کی مقدس کتاب رامائن اسی کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔ بالمیکی اچھوت ہیں جنھیں آج کل عام طور پر دلت کہا اور لکھا جاتا ہے۔انو چند ابھی لڑکپن میں تھا کہ پاکستان بن گیا۔ اس کے اہل خانہ اور محلے داروں کی اکثریت نے اپنی جنم بھومی لاہور کو چھوڑنے سے انکار کردیا اور مشکل ترین حالات میں یہیں رہنے کو ترجیح دی تھی۔
انوچند نے اوائل عمری میں ترقی پسند سیاسی تحریک سے تعلق قائم کرلیا۔ انھوں نے میونسپل کارپوریشن کے سینٹری ورکرز کو منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ یہ کام بہت مشکل اور محنت طلب تھا کیونکہ سینٹری ورکرز نہ صرف ناخواندہ بلکہ سماج کے پسماندہ ترین پرت سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اپنی پسماندگی، غربت اور ناداری کو قسمت کا لکھا سمجھ کر ہمہ وقت گندگی میں اپنے روز و شب گذارتے تھے۔ بہتر حالات اور اوقات کار کا مطالبہ کرنا ان کے نزدیک خود پر مزید ظلم وستم کو مدعو کرنا تھا۔ انو چند نے انھیں حوصلہ دیا اور انھیں یہ باور کرایا کہ بہتر زندگی کا حصول ان کا حق ہے۔ انو چند نہ صرف مزدوروں کے حقوق کے لئے متحرک رہتے تھے بلکہ انھوں نے سماجی تبدیلی کی خواہش مند قوتوں کے ساتھ جڑت بھی بنائی ہوئی تھی۔
انو چند کو جلد ہی یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ یہاں وہ اپنی ہندو شناخت کے ساتھ نہ رہ سکیں گے چنانچہ اس نے اپنا نام انو چند سے انور چاند کرلیا لیکن اس نے اپنا مذہب تمام تر سماجی دباؤ کے باوجود بدلنے سے انکار کردیا تھا حالانکہ بالمیکی محلے کی اکثریت ہندو مذہب چھوڑ کر مسیحت قبول کرچکی تھی۔
انور چاند کے بیٹے بیٹیاں اور بیوی 1981 میں نقل مکانی کرنے بھارت چلے گئے اور وہاں انھوں نے امرتسر میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ انھوں نے انور چاند کو بھی بھارت آنے اور وہاں مستقل رہنے پر زور دیا لیکن انور چاند اس پر راضی نہ ہوئے وہ کہتے تھے کہ میں لاہور چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ لاہور جہاں میں پیدا ہوا جہاں میں نے اپنا بچپن اور جوانی گذاری میں اب بڑھاپے میں اسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ وہ دو تین مرتبہ اپنے بچوں سے ملنے امرتسر گئے بھی لیکن چند ہفتوں کے بعد واپس آگئے تھے۔
کچھ عرصہ قبل جب ان کی بیوی کا وہاں انتقال ہوا تو انھوں نے امرتسر جانے کی بھرپور کوشش کی لیکن بھارتی سفارت خانے نے انھیں ویزا دینے سے انکار کردیا تھا۔ وہ چند میل دور اپنی شریک حیات کی آخری رسومات میں شریک ہونےسے قاصر تھے۔ ابھی بیوی کے انتقال کو کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ انور چاند کے بیٹے کا بھی انتقال ہوگیا۔ ان دو اموات نے انور چاند کو بہت مایوس اور ندھال کردیا تھا۔ اب وہ ہر قیمت پر امرتسر جانا چاہتے تھے تاکہ وہ اپنے بیٹے، بیٹیوں اور ان کے بچوں درمیان اپنی زندگی کے باقی ماندہ ماہ و سال گذار سکیں لیکن بھارتی سفارت خانہ تھا کہ انھیں ویزا دینے سے انکاری تھا۔
انور چاند ایک سے زائد مرتبہ میرے پاس آئے اور کسی سفارش کا بندوبست کرنے کا کہتے جوبھارت کا ویزا دلانے میں ان کی مدد کرسکے۔ وہ بتاتے تھے کہ ان کی نواسی چندی گڑھ میں قانون کی تعلیم حاصل کررہی ہے اور اسے ریاستی سکالر شپ مل گیا ہے۔ یہ بتاتے ہوئے ان کی آنکھوں کی چمک دیکھنے لائق ہوتی تھی۔ بالآخر انور چاند کو نومبر 2019 میں بھارت کا ویزا مل گیا۔ انھوں نے سب دوستوں کو بتادیاکہ اب وہ گئے تو پھر واپس نہیں آئیں گے۔ چنانچہ وہ نومبر کے اوائل میں اپنے لاہور کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر امرتسر چلے گئے۔
لیکن کسے معلوم تھا کہ وہ جو اتنی مشکلات کے بعد اپنے بچوں کے پاس رہنے کے لیے گئے تھے وہاںوہ چند ہفتے ہی رہ پائیں گے۔ لاہور کا انو چند اور انور چاند 7۔جنوری 2020 کو امرتسر میں اس جہاں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا۔ شائد وہ لاہور چھوڑنے کا غم برداشت نہ کرسکا اور اس نے دنیا چھوڑے کا فیصلہ کرلیا۔۔