بیرسٹرحمید باشانی
جو بائیڈن مصروف آدمی ہیں۔ ان کے بوڑھے کندھوں پر دنیا کی طاقتور ترین ایمپائر کا بوجھ ہے۔ صرف ریاستہائے متحدہ امریکہ کےمسائل ہی نہیں، دنیا کا ہر بڑا مسئلہ ان کی توجہ کا طالب ہوتا ہے۔ خواہ دنیا میں جنگ و امن کا سوال ہو، ماحولیاتی تبدیلی اور تباہی کا مسئلہ ہویا دنیا کے بڑے معاشی و سیاسی فیصلے ہوں ، امریکی صدر کو ان مسائل کے بارے میں آگاہ رہنا پڑتا ہے، اور فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ ظاہر ہے دنیا کے ہر بڑے مسئلے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے اس مسئلے پر ” ہوم ورک ” کرنا پڑتا ہے۔
یہ سارا کام پس منظر میں ہوتا ہے، جس میں وائٹ ہاوس کی مداخلت ضروری نہیں ہوتی۔ اس گراونڈ ورک یا ہوم ورک کی ذمہ داری متعلقہ محکموں کے نمائندوں اور اہل کاروں کی ہوتی ہے۔ اور ایک طویل “پراسس” کے بعد جب کسی مسئلے پر حتمی فیصلے کا وقت آتا ہے، تو امریکی صدر اور اس کے مدد گاروں اور معاونوں کو ملوث ہونا پڑتا ہے۔ اس طرح ایک مراحلہ آتا ہے، جس پر دنیا کا ہر بڑا اور اہم ترین مسئلہ امریکی صدر کی توجہ کا طالب ہوتا ہے۔
گویا امریکی صدر نے دوران صدارت وقت کے خلاف دوڑ لگائی ہوتی ہے۔ دنیا میں ہزاروں لوگ ان کی توجہ چاہتے ہیں۔ ان میں سیاست دان، سفارت کار، ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سمیت زندگی ہر شعبے کے نمایاں افراد شامل ہوتے ہیں۔ کئی سربراہ مملکت امریکی صدر سے ملاقات کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوتی۔ کئی ایک کو برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ صدر بائیڈن کو مسند اقتدار پر فائز ہوئیے چھ ماہ گزر چکے ہیں۔ ان چھ ماہ میں وہ کئی ایک سربراہ مملکت سے نہیں مل سکے۔ یا ان سے بذریعہ فون بات نہیں کر سکے، جن کی عام حالات میں توقع کی جاتی ہے۔ ان ممالک میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بھی شامل ہیں۔
گزشتہ چھ ماہ سے جو بائیڈن کو جو سب سے بڑا مسئلہ در پیش ہے، وہ افغانستان ہے۔ اس مسئلے کا باعزت حل امریکہ کے لیے بہت اہم ہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جن میں دو بہت نمایاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ امریکہ کی خواہش کے مطابق اس مسئلے کا حل تاریخ میں امریکی ایمپائر کے مقام کا تعین کرے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے حق میں اس مسئلے کے حل سے یہ طے ہوگا کہ مستقبل کی سیاست میں امریکہ کہاں کھڑا ہو گا۔ اور کیا مستقبل قریب میں بطور سپر پاور امریکہ دنیا میں اپنی بالا دستی اور فوجی برتری قائم رکھ سکتا ہے یا نہیں۔
افغانستان کے مسئلے کی اس اہمیت کے پیش نظر پاکستان شاید امریکہ کے لیے اہم ترین ملک ہے۔ اس کی وجہ پاکستان کی جغرافیائی قربت ہی نہیں، سیاسی و مذہبی اثرو رسوخ بھی ہے، جو وہ افغانستان کے کچھ “سٹیک ہولڈرز” پر رکھتا ہے۔ اس تناظر میں امریکہ کے لیے پاکستان نہ تو کوئی عام ملک ہے، اور نہ ہی وزیر اعظم عمران خان دنیا کے دوسرے وزرائے اعظم کی طرح کوئی عام وزیر اعظم ہیں۔ اس تناظر میں امریکی صدر کا چھ ماہ کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود وزیر اعظم سے ملاقات نہ کرنا اور یہاں تک کہ فون پر رسمی گفتگو سے گریز کرنا کوئی ایسا عمل نہیں ہے، جس کو نظر انداز کیا جا سکتا ہو، یا اس عمل کو جو بائیڈن کی معمول کی مصروفیت کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
کوئی سنجیدہ تجزیہ کار یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کی وجہ معمول کی مصروفیت ہے، بلکہ اکثر تجزیہ کاروں کا اس بات پر اصرار ہے کہ یہ جو بائیڈن کا سوچا سمجھا اور طے شدہ عمل ہے۔ پاکستان میں بھی عام طور پر اس بات پر اتفاق رائے موجود رہا ہے۔ دیر آئید درست آئید کے مصداق اب حکومت کے کچھ اہل کار بھی ان لوگوں سے اتفاق کرنے پر مجبور ہیں، جن کا خیال ہے کہ پاکستان کو نظر انداز کرنا ایک سوچی سمجھی امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے حال ہی میں اس تلخ حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ فنانشل ٹائمر کے ساتھ اپنے انٹرویو میں وہ بالآخر حرف شکایت زبان پر لانے پر مجبور ہوئیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر نے اتنے اہم ملک کے وزیر اعظم کے ساتھ بات نہیں کی ،جو اس معاملے میں خود بقول امریکہ فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگرچہ امریکی اہل کاروں نے یہ واضح کیا ہے کہ اگر امریکی صدر نے آج تک وزیر اعظم سے بات نہیں کی تو اس کا مطلب لازمی طور پر یہ نہیں ہے کہ امریکہ پاکستان تعلقات خراب ہیں۔
ان وضاحتوں کو کوئی ذی شعور شخص تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ افغانستان کے مسئلے پر امریکہ پاکستان تعلقات کی تاریخ کافی طویل ہے۔ اور یہ تاریخ ان دونوں کے تعلقات میں اس نئے موڑ کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ جارج ڈبلیو بش کوئی پاکستان کا “فین” نہیں تھا۔ لیکن افغانستان کے تناظر میں وہ پاکستان کی اہمیت سے کما حقہ اگاہ تھا۔ اس اہمیت کے پیش نظر قابل ذکر مخالفت کے باوجود اس نے 2004میں پاکستان کو باقاعدہ اتحادی اور نیٹو سے باہر ایک شراکت دار ملک قرار دیا تھا۔ اس اتحاد کے دوران پاکستان کی مالی مدد بھی ہوتی رہی۔
لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں تعلقات نے ایک نیا موڑ لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس مد میں اربوں ڈالر خرچ کرنے اور اس کا کوئی مفید نتیجہ نہ نکلنے کا شکوہ کیا۔ دسمبر2017 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی دو ارب ڈالر کی امداد بند کردی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ گزشتہ پندرہ سالوں میں امریکہ پاکستان کو تیتیس ارب ڈالر سے زائد مدد دے چکا ہے۔ اور جواب میں ہمیں کیا ملا ؟ جھوٹ اور دھوکہ ؟ ٹرمپ نے صرف پاکستان ہی نہیں، بلکہ کئی ممالک کے ساتھ تعلقات میں دراڑیں ڈال دیں تھیں۔ مگر جو بائیڈن نے آتے ہی یہ ٹوٹی ہوئی باڑیں مرمت کرنے کے لیے تیز رفتار اقدامات کیے۔ لیکن پاکستان کے باب میں انہوں نے ایسا کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آج امریکہ کو شاید پاکستان کی وہ ضرورت نہیں ہے، جس نے بش کو مجبور کیا تھا کہ وہ اس کو اتحادی شراکت دار قرار دیں۔ حالات میں بہت بڑا فرق ہے۔ فرق یہ ہے کہ بش کے وقت امریکہ افغانستان میں فوجیں لا رہا تھا، اور بائیڈن کے وقت امریکہ افغانستان سے فوجیں نکال رہا ہے۔ اور اسے ایسا کرنے کی اتنی جلدی ہے کہ وہ کئی ایسی رسمی کاروائیوں سے بھی پہلو تہی کر ر ہا ہے ، جو ان حالات میں ضروری ہوتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے کئی نہیں جا رہا۔ وہ افغانستان سے صرف اپنی فوجیں نکال رہا ہے، تاکہ اس جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے ، جس کی وجہ سے امریکی رہنما امریکی رائے عامہ میں ہدف تنقید بن رہے ہیں۔
امریکہ اب افغانستان کو اپنے لیے “وائیٹ ایلیفنٹ” یعنی سفید ہاتھی نہیں بننے دے گا، لیکن وہ افغان حکومت اور خطے میں موجود اپنے فوجی اڈوں کے ذریعے افغانستان کے معاملات میں اپنا کردار جاری رکھے گا۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس نئی امریکی پالیسی کے تناظر میں اپنا نیا کردار تلاش کرنا پڑے گا۔
♠