محمد زبیر
افغانستان میں داعش اور طالبان کے درمیان چپقلش ایک عرصے سے جاری ہے۔ داعش کے جنگجو طالبان سے زیادہ خطرناک اور شدت پسند ہیں اگرچہ کہ انکی تعداد طالبان کے مقابلے میں بہت مختصر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ داعش نے طالبان کے اسلامی تشخص کو چیلنج کیا ہے اور کہا ہے کہ طالبان ایک اسلامی تحریک سے بدل کر ایک پشتون/افغان نیشنلسٹ پارٹی/تحریک بن چکے ہیں!!۔
کابل ائرپورٹ پر خودکش حملہ دراصل داعش (خراسان) کا اپنے آپ کو طالبان سے مختلف دکھانے کے سلسلے میں ایک سیاسی بیان تھا۔ یعنی یہ کہ امریکہ کے لیے کام کرنے والے جن افغانوں کو طالبان قابلِ معافی سمجھتے ہیں داعش انہیں قابلِ قتل سمجھتی ہے۔ اسطرح داعش طالبان کو اسلامی فریم ورک کے اندر نظریاتی طور پر چیلنج کررہی ہے۔
کیاطالبان کا یا داعش کا نظریہ اور نظامِ اسلام صحیح ہے؟ اب اس سوال پر افغانوں اور پشتونوں کا خون بہایا جائے گا۔
اگر 2021 میں طالبان اپنے آپ کو مسلمان ہونے کیساتھ ساتھ افغان کہہ کر افغانیت کی نیشنلسٹ اپیل کا سہارا لے رہے ہیں تو یہ ایک قابلِ فہم بات ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ طالبان کے افغانستان پر مکمل قبضے کے راستے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے یا اور کسی کونے سے طالبان کیخلاف بغاوت کا امکان ہے تو وہ افغان نیشنلزم ہے۔ اسی لیے وہ اپنے آپ کو اسلام کے ٹھیکیدار سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس بار اپنے آپ کو افغان کے طور پر متعارف کروا رہے ہیں۔
تاہم طالبان ایسا کرکے اپنے آپ کو ایک بہت مشکل صورت حال میں بھی ڈال رہے ہیں۔ اور وہ یہ کہ اگر ایک طرف داعش طالبان سے انکا اسلامی تشخص چھین لینے میں کامیاب ہوجائے اور دوسری طرف لَر و بَر کے پشتون نیشنلسٹ قوتیں طالبان سے کامیابی پشتون نیشنلزم کا کارڈ چھین کر ان کے ارادوں کو بے نقاب کردیں تو پھر کسی شاعر کے مصداق:
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے صنم!
نقطہ فکر: پاکستان نے مجاہدین بنائے، انہیں استعمال کیا اور پھر جب انکی افادیت ختم ہوئی تو انہیں پھینک کر طالبان بنائے۔ جب طالبان کی افادیت ختم ہوجائیگی تو انہیں پھینک کر داعش یا کسی اور برانڈ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوجائیگی۔
♣