پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے 1969ء کے الیکشن میں ایک پینل کی طرف سے حمید اختر صدر اور جنرل سیکرٹری کے طور پر حسین نقی تھے جبکہ دوسرے پینل میں صدراور جنرل سیکرٹری ضیاء الاسلام انصاری تھے۔ ہمایوں ادیب نے الیکشن سے ایک روز قبل مجھے بتایا اور پوچھا کہ تم ووٹ کس کو دے رہے ہو؟ میں نے حمید اختر اور حسین نقی کا نام لے دیا۔ اس نے کہا نہیں تم ضیاء الالسلام انصاری کو ووٹ دو گے میں نے جواب دیا’’میں ضیاء السلام انصاری کو ووٹ نہیں دے سکتا‘‘ہمایوں ادیب نے وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ حسین نقی میرا اس زمانے سے واقف ہے جب وہ طالب علم رہنما تھا اور کراچی بدر ہوکر لائل پور آکر ٹھہرا تھا۔
جہاں تک ضیاء الاسلام انصاری کا تعلق ہے اس کو میں نہیں جانتا ہوں پھر ایک ایسے شخص کو میں کیسے ووٹ دوں جس کا حدود اربعہ ہی مجھے معلوم نہیں۔ اس پر ہمایوں ادیب مجھ سے ناراض ہوگئے۔ جہاں تک ضیاء السلام انصاری کا تعلق ہے وہ ان دنوں مشرق میں ہوتے تھے۔ ان کی دوستی اشرف طاہر سے بہت گہری تھی۔ اشرف طاہر نے 1972ء میں بیمار ہو کر فوت ہوگئے تو ضیاء اسلام انصاری نے ان کی بیوہ سے شادی کرلی۔ اشرف طاہر کی ایک بیٹی روبینہ اشرف بھی تھی وہ بعد ازاں ٹی وی کی ایک مشہور اداکارہ بنی اور آج کل بھی کراچی کے ٹی وی ڈراموں میں آتی ہے۔
ضیاء اسلام انصاری کے الیکشن ہارنے سے ہمایوں ادیب مجھ سے ناراض ہو گئے اور دوسرے روز ہی میری خبروں میں نقص نکالنے شرع کر دیے۔ ایک بار انہوں نے مجھ سے کہا تم نے یہ جو ویت نامی حریت پسندوں کو حریت پسند لکھا ہے یہ غلط ہے انہیں چھاپہ مار لکھنا چاہیے لیکن میں بضد رہا کہ وہ حریت پسند ہیں کیونکہ وہ امریکی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں۔
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ صبح کی شفٹ کے انچارج حاجی صالح محمد صدیق تھے ۔سب ایڈیٹروں کی سرخیاں اور خبریں چیک کرتے تھے ان کا خبریں کے معاملے میں وژن بڑا تیز تھا۔ ان دنوں امریکی خلا نوردوں کا ایک مشن چاند کے لیے بھیجا گیا تھا جس میں آرمسٹرانگ اور اونیل جیسے خلا نورد تھے۔ تیسرے کانام مجھے یاد نہیں، بہرطور شاید 20جولائی تھی کہ ٹیلی پرنٹر پر خبر آنا شروع ہوئی کہ خلاء نوردوں کی گاڑی آج سات بجے چاند پر اتر جائے گی ان دنوں پہلی ڈاک کی کاپی ساڑھے چار بجے تک پریس میں جانا ضروری ہوتی تھی کیونکہ گاڑیوں کی روانگی 5بجے شروع ہوتی تھی۔ ان دنوں تیز رفتار نہ تو بسیں تھیں اور نہ ہی ٹرین۔ لہٰذا کاپی کسی طور پر بھی لیٹ نہیں کی جاسکتی تھی۔
تین بجے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ خلاء نوردوں کی گاڑی درست جارہی ہے میں نے کہا اب تک درست ہی ہے اس پر انہوں نے فیصلہ سنا دیا کہ بس تین گھنٹے بعد ضرور وہ چاند پر اتر جائیں گے چنانچہ انہوں نے اخبار کی لیڈ ’’انسان چاند پر اتر گیا‘‘ بنا کر کاتب کو دے دی ان دنوں کمپیوٹر بھی نہیں ہوتے تھے بس کاتبوں کو کتابت کرنا پڑتی تھی اور بڑی سرخی کو تو کافی وقت لگتا تھا اور ہیڈ کاتب صرف سرخی ہی لکھتا۔ چنانچہ سرخی لکھ کر وارثی صاحب کو دے دی گئی۔ اخبار چھپنے کے لیے چلا گیا ۔ یوں حاجی صاحب نے قبل از وقت ہی رسک لے کر سرخی لگا دی جو بعد ازاں درست ثابت ہوئی۔
وقت بہتا دریا، نیازمانہ ستمبر 2004