بھارت: جہادی دہشت گردی پر یونیورسٹی کورس تنقید کی زد میں

بھارت کی معروف جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں جہادی دہشت گردی کے نام سے ایک نیا کورس متعارف کرایا گیا ہے، جس میں جہادی دہشت گردی‘ کو مذہبی دہشت گردی کی واحد شکل اور سابقہ سوویت یونین اور چین کو ریاستی دہشت گردی کے اہم اسپانسر‘ قرار دیا گیا ہے۔

نئی دہلی کی  جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یومیں اس برس نئے تعلیمی سال سے انسداد دہشت گردی پر کورس شروع ہونے سے پہلے ہی تنازعہ کا شکار ہو گیا ہے۔ سول سوسائٹی اور دانشوروں نے اسےنفرت پھیلانے کی کوشش‘ قرار دیا ہے جبکہ بائیں بازو  کی جماعتوں نے یہ کورس پڑھانے کی اجازت نہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) عمرانیات اور سماجیات کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بھارت کی بہترین یونیورسٹیوں میں دوسرے نمبر پر آتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل نے باہمی تبادلہ خیال کے بغیر ہی رواں تعلیمی سال سے ایک نیا کورس شروع کرنے کی منظوری دے دی۔

سول سوسائٹی، دانشوروں اور ماہرین سماجیات کو اعتراض اس بات پر ہے کہ اس کورس کے لیے جو نصاب مرتب کیا گیا ہے اس میں بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی‘ کے ضمن میں کہا گیا ہے کہ صرف جہادی دہشت گردی‘ ہی بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی کی واحد شکل ہے۔ اس کے علاوہ سابقہ سوویت یونین اور چین ریاستی اعانت سے کی جانے والی دہشت گردی کے اہم ممالک‘ رہے ہیں۔

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر یہ کورس ہی غلط ہے کیونکہ یہ ایک مخصوص مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش ہے۔ ظفرالاسلام خان نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”اگر یونیورسٹی کو مذہبی دہشت گردی سے متعلق مضمون اپنے کورس میں شامل کرنا اتنا ہی ضروری تھا تو اسے تمام مذاہب کو اس میں شامل کرنا چاہیے تھا۔ کس مذہب میں دہشت گردی نہیں ہے؟ ہندوؤں میں ہے، سکھوں میں ہے، بودھسٹوں میں ہے، مسیحیوں میں ہے، یہودیوں میں ہے۔ ہر جگہ اس طرح کی تحریکیں پہلے بھی تھیں اور آج بھی ہیں۔

ظفرالاسلام خان مزید کہتے ہیں، ”حالانکہ ہندوتوا میں اس طرح کی تحریکیں بھری پڑی ہیں۔ بجرنگ دل اور کرنی سینا جیسے نہ جانے کتنے سینا ہیں۔ اور یہ جو بے گناہ لوگوں کی سر عام قتل کیا جا رہا ہے وہ کون کر رہا ہے؟۔۔۔ یہ درست ہے کہ ہمارے یہاں بھی ایسے لوگ ہیں۔ داعش وغیرہ ہے۔ لیکن ہم اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔

اس کورس کو پروفیسر اروند کمار نے تیار کیا، جو جے این یو میں امریکی، لاطینی امریکی اور کینیڈین اسٹڈیز کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ پروفیسر اروند کمار کی دلیل ہے، ”پوری دنیا اسلامی دہشت گردی کو تسلیم کرتی ہے اور طالبان کی آمد کے بعد اسے ایک نئی رفتار مل گئی ہے۔ جہاد ایک عالمی چیلنج ہے اور ایسے وقت میں جب کہ طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ موضوع پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ میری معلومات کی حد تک کسی دوسرے مذہب میں دہشت گردی کو اختیار کرنے کی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی ہے۔

ظفر الاسلام کا تاہم کہنا ہے، ”اگر دوسرے مذاہب میں مذہبی دہشت گردی نہیں ہے تو لنچنگ کیا ہے؟ بھارت میں جس کا مظاہرہ آئے دن ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس طرح کے کورس کا اصل مقصد مسلمانوں اور اسلام سے لوگوں کو بدظن کرنا ہے۔ یہ غلط فہمی پھیلانا ہے کہ مسلمان قابل اعتماد نہیں ہیں اور ہر مسلمان ممکنہ طور پر دہشت گرد ہو سکتا ہے۔

بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی)نے اس کورس کو پڑھانے کی اجازت نہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔سی پی آئی کے رکن پارلیمان بنوئے وسووم نے بھارتی وزیر تعلیم کو ارسال کردہ خط میں لکھا، ”یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ادھوری سچائی اور دانشورانہ بے ایمانی کے ذریعے تعلیم کو  فرقہ وارانہ اور سیاسی رنگ میں رنگنے کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے‘‘۔

سی پی آئی کے رکن پارلیمان کا مزید کہنا تھا، ”جہادی دہشت گردی کو بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی کی واحد شکل اور سوویت یونین اور چین کو دہشت گردی کی اعانت کرنے والے اہم ممالک قرار دینا نہ صرف تاریخی لحاظ سے غلط ہے بلکہ یہ تعصب اور سیاسی مفادات پر مبنی ہیں۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کی سیکرٹری موسمی باسو کا اس حوالے سے کہنا ہے، ”اگر مذہب کو دہشت گردی سے اس طرح جوڑ دیا جائے تو سڑک پر چلنے والے عام آدمی اور دانشوروں میں فرق ہی کیا رہ جائے گا؟ کیا میانمار اور سری لنکا میں کوئی فرق ہے؟ کیا وہاں جو کچھ ہو رہا ہے ہم اسے بودھسٹ دہشت گردی کہہ سکتے ہیں؟وہ کہتی ہیں کہ اگر دہشت گردی کو ایک نئے مضمون کے طور پر شامل کرنا اتنا ضروری ہی تھا تو پہلے خاطر خو اہ تبادلہ خیال کر لیا جاتا۔

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کہتے ہیں کہ جے این یو نے تین برس پہلے ہی اس کورس پر کام شروع کر دیا تھا۔ اس وقت جب اس کے بارے میں خبریں سامنے آئی تھیں تو کمیشن نے یونیورسٹی کو نوٹس بھیج کر حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے کہا تھا اور کہا تھا کہ اگر اس طرح کا کوئی کورس زیر غور ہے تو تمام مذاہب کو اس میں شامل کیا جائے۔ لیکن یونیورسٹی نے اپنے تحریری جواب میں اس طرح کا کوئی کورس شروع کرنے کی خبر سے انکار کیا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کورس کو روکنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ دیگر یونیورسٹیاں بھی اسے اپنے لیے مثال بنا سکتی ہیں۔

dw.com/urdu

Comments are closed.