کوئٹہ میں یونائیٹڈ بینک، ہزار گنجی برانچ کے 69 سالہ بینک مینجر قدیر ریکی کی زندگی اس وقت مکمل بدل گئی جب انکا جوا ن سال بیٹا 13 فروری 2009 کو لاپتہ کردیئے گئے۔ یہ عمر رسیدہ بینک منیجر چند ماہ بعد ریٹائر ہونے والا تھا لیکن انکے بیٹے، معروف سیاسی کارکن جلیل ریکی کی جبری گمشدگی نے قدیر ریکی کو بلوچستان کے سب سے معروف انسانی حقوق کے کارکن ماما قدیر میں بدل دیا۔
جس وقت جلیل ریکی کو مبینہ طور پاکستانی خفیہ اداروں نے جبری گمشدگی کا شکار بنایا، یہ ایک ایسا وقت تھا جب کثیر تعداد میں روزانہ کے بنیاد پر بلوچ سیاسی کارکنان کو گرفتار کرکے لاپتہ کیا جارہا تھا، لیکن بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کے ان خلاف ورزیوں کے خلاف کوئی توانا آواز موجود نہیں تھی۔ بلوچ آزادی پسند سیاسی جماعتیں بڑی تعداد میں اپنے کارکنان و کئی رہنماوں کی جبری گمشدگی کے باعث زیر زمین جارہے تھے اور پارلیمانی قوم پرست جماعتوں نے حالات کی تپش سے بچنے کیلئے خاموشی اختیار کرلی تھی۔
ان حالات میں ماما قدیر اور دوسرے لاپتہ افراد کے لواحقین نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے کا بِیڑہ اٹھا لیا۔ لاپتہ افراد کو منظر عام پر لانے کیلئے انہوں نے اپنے مہم کا آغاز جولائی 2009 میں شروع کردی اور 27 ستمبر2009 کو اسے باقاعدہ تنظیمی شکل دیکر اسکا نام “وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز” رکھ دیا گیا۔ اس تنظیم کی قیادت آج تک لاپتہ افراد کے لواحقین کررہے ہیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے احتجاج کے طور پر سنہ 2009 میں علامتی بھوک ہڑتال کا آغاز کیا، جو تقریبا ساڑھے چار ہزار دن گذرنے کے بعد آج تک جاری ہے۔ یہ علامتی بھوک ہڑتال بلوچستان کی تاریخ کے سب سے پر اثر سیاسی مہمات میں سے ایک ہے۔ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اس علامتی بھوک ہڑتال کا لگا کیمپ، وی بی ایم پی کی تحریک کی پہچان اور ماما قدیر چہرہ بن گئے۔ احتجاجوں سے لیکر ٹی وی مذاکروں تک اور بلوچستان سے لیکر جینیوا تک ماما قدیر ہرمیسر پلیٹ فار پر لاپتہ افراد کیلئے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
ماما قدیر کی سرگرمیوں نے عالمی و علاقائی دونوں سطحات تک ایک شور برپا کیا، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے لاپتہ افراد کے مسئلے میں دلچسپی لینا شروع کردیا لیکن اسکے ساتھ ہی ماما قدیر کی تکالیف میں بھی اضافہ ہوگئے، انہیں دھمکیاں موصول ہونا شروع ہوگئیں، ان کو ڈرانے کیلئے کئی بار ان پر حملے کیے گئے، لالچ دیا گیا، یہاں تک کہا گیا کہ وہ اگر اپنے سرگرمیوں سے باز آجاتے ہیں تو انکے بیٹے کو رہا کیا جائے گا، انکے تکالیف میں مزید اضافہ کرنے کیلئے ریٹائرمنٹ کے بعد انکی پینشن روک دی گئی لیکن ان تمام کلفتوں کے باوجود ماما قدیر اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
24 نومبر 2011 کو ماما قدیر کے بیٹے جلیل ریکی کی گولیوں سے چھلنی لاش برآمد ہوئی۔ انکے بیٹے کے قاتلوں نے سمجھا کہ اسکے بعد ماما قدیر کی سرگرمیاں ختم ہوجائینگی لیکن بیٹے کی شہادت سے ماما قدیر کے قدموں میں لغزش پیدا ہونے کے بجائے انکی سرگرمیوں میں مزید تیزی پیدا ہوگئی۔
27 اکتوبر 2013 کو ماما قدیر بلوچ نے دوسرے لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک لاپتہ افراد کی رہائی کیلئے ایک انتہائی طویل لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ لاپتہ افراد کی تصاویر و کوائف، پلے کارڈز ایک ہاتھ گاڑی پر اٹھائے اس لانگ مارچ نے 2800 کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا۔
ماما قدیر کے بقول سنہ 2009 میں انہوں نے دوسرے لواحقین سے وعدہ کیا تھا کہ اگر انکا بیٹا بازیاب بھی ہوجاتا ہے تو وہ تب تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک کہ آخری لاپتہ بلوچ بازیاب نہیں ہوجاتا۔ وہ اپنے وعدے پر 13 سال گذرنے کے باوجود قائم ہیں۔ انکا احتجاج اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ تادم تحریر قائم ہیں۔
آج ماما قدیر 81 سال کے ایک ضیعف العمر شخص ہیں، جو دوائیوں پر انحصار کرتے ہیں اور ہسپتالوں کا چکر ایک معمول بن گیا ہے لیکن عمر اور صحت انکے سرگرمیوں اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کی جذبے میں کوئی کمی نا لاسکی۔ ہسپتالوں میں راتیں گذارنے کے بعد وہ تھوڑا بہتر ہوتے ہی دوبارہ لاپتہ افراد کی کیمپ کی قیادت کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ وہ اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ جب تک وہ زندہ ہیں، وہ اپنی آواز اٹھاتے رہیں گے اور انکا انتقال لاپتہ افراد کے کیمپ میں ہی ہوگا۔
بشکریہ:دی بلوچستان پوسٹ اداریہ