بیرسٹر حمید باشانی
طالبان کی طرف سے افغانستان پر کنٹرول کے بعد دنیا بھر سے مختلف الخیال لوگوں کی طرف سے ان کے خلاف آوازیں بلند ہوئی ہیں۔ ان میں بے شمار دانش ور، شاعر ادیب، فنکار اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات شامل ہیں۔ اس مخالفت کی مختلف وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو طالبان کا ماضی ہے۔ ماضی میں افغانستان میں انیس چھیانویں سےسنہ 2001 تک جو طالبان کی حکومت قائم ہوئی تھی، وہ بہت لوگوں کے لیے ایک تلخ تجربہ تھا۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے سوال پراس حکومت نے بہت ہی سخت گیر بلکہ بد ترین مارشل لا سے بھی سخت آمرانہ طرز عمل اپنایا تھا۔ اس دور میں انہوں نے عورتوں کے حقوق اور ان کی سماجی حیثیت کے سوال پر بہت ہی رجعت پسندانہ موقف اختیار کیا تھا۔ ان کی نقل و حرکت، روز گار اور یہاں تک کے تعلیم پر بے جا اور سخت پابندیاں لگانے کی کوشش کی تھی۔ عورتوں پر زبردستی پردے اور برقعے مسلط کیے تھے، اور ان کو سر عام کوڑے مارنے کی سزائیں دی تھیں۔ جرائم میں ملوث افراد کے سرے عام ہاتھ کاٹے گئے تھے۔ سر عام پھانسی کی سزائیں دی گئیں تھیں۔
طالبان کے دور میں افغانستان میں قرآن و حدیث کی من پسند تعبیر و تشریح کی گئی، جو ان کے مقامی رسم رواج کے قریب تھی۔ فلم، موسیقی اور ٹیلی ویزن پر پابندی لگائی گئی۔ماضی کے اس نا خوشگوار تجربے کی روشنی میں بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ اگرچہ اب کی بار طالبان اعتدال پسندی، اور سب کو ملا کر چلنے کے وعدے ضرور کرتے ہیں، لیکن ان کے ان پرانے بنیادی نظریات اور طرز فکر میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی ہے۔ چنانچہ وہ آگے چل کر انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور شہری آزادیوں کو سوال پر اپنے قدیم قدامت پرستانہ اور رجعت پسند موقف کی طرف رجوع کر لیں گے۔
دوسرے وہ لوگ طالبان کی مخالفت کرتے ہیں، جن کا موقف ہے کہ ماضی میں عالمی برادری نے قریب قریب متفقہ طور پر طالبان کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔ دنیا کے کئی ممالک میں طالبان کی اس حیثیت کو باقاعدہ قانونی شکل دی گئی۔ اس کے بعد گزشتہ بیس برس کے دوران طالبان کے طرز فکر اور طرز عمل میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئی، جس کی بنیاد پر یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ ان کے بنیادی فکر و عمل میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ اور نہ ہی ان کو با ضابطہ طور پر دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے کے لیے کوئی قانونی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ چنانچہ افغانستان پر ان کے کنٹرول کی وجہ سے یکدم ان کے ماضی کےدہشت گرد حیثیت اور مقام سے صرف نظر کر کہ ان سے معاملات کرنے کے عمل سے دنیا میں دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ اور یہ اس وقت طالبان کی مخالفت کی تیسری وجہ ہے۔ اس بنیاد پر مخالفت کرنے والوں میں کینیڈا جیسے ملک شامل ہیں، جن کا خیال ہے کہ دنیا کو اس طرح دہشت گردوں اور دہشت گردی کے بارے میں اپنے اصولی موقف سے انحراف نہیں کرنا چاہیے۔
تیسرے وہ لوگ ہیں، جن کا خیال ہے کہ طالبان نے بندوق کے زور پر اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ اس سلسلے میں کئی مطالبات کے باوجود کسی قسم کا جمہوری طریقہ کار اختیار کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک متفقہ کولیشن حکومت کا خیال بھی انہوں نے عملی طور پر مسترد کردیا، چونکہ اقتدار میں مکمل شراکت کے بغیر محض چند افراد یا بڑے ناموں کی اقتدار میں برائے نام شمولیت کو متفقہ یا کولیشن حکومت نہیں قرار دیا جا سکتا۔
اس طرح لوگوں کی ایک بڑی تعداد طالبان کے ماضی، ان کے نظریات، اور ان کی موجودہ پریکٹسز کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی مخالفت میں آواز بلند کرتے ہیں۔ دوسری طرف طالبان کے مخالفین کی طرح ان کے ہمدردوں کی بھی کمی نہیں، جو اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر طالبان کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ اس میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں، جو طالبان کے نظریات، خیالات اور طرز عمل سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ لوگ طالبان کو مزاحمتی کردار سمجھتے ہیں، جو اسلام پسند ہیں، اور اسلامی شریعت کے نفاذ کو اپنی منزل قرار دیتے ہیں۔
اس طرح کچھ اور چھوٹے موٹے گروہ ہیں، جو مذہبی بنیادوں پر طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ لیکن ان ہمدردوں میں کچھ ایسے غیر معمولی اور حیران کن ہمدرد بھی شامل ہیں، جن کی ہمدردی کی اپنی الگ اور خاص وجوہات ہیں۔ یہ امریکہ اور مغرب میں موجود مختلف دائیں بازوں کے سیاسی گروہ ہیں۔ ان میں کچھ انٹرنیٹ اور سائبر سپیس پر موجودکچھ ایسےفورمز اور گروہ ہیں، جن کو مغربی دنیا میں دائیں بازوں کے شدت پسند گروہ کہا جاتا ہے۔ یہ گروہ اپنی آن لائن گفتگو میں طالبان کی فتح کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ وہ خاص طور پر طالبان کے نسوانیت دشمن اور “ایل جی بی ٹی کیو” ایجنڈے کی بے پناہ تعریف کرتے ہیں۔ یہ لوگ طالبان کو ” گڈ گائز” یعنی اچھے لوگ قرار دیتے ہیں۔
وہ طالبان کی لڑائی کو مغرب میں خدا کے خوف سے آزاد لبرل ازم کے خلاف اپنی لڑائی کی روشنی میں دیکھتے ہیں، جو ان کے خیال میں ایک طرح کی مقدس لڑائی ہے۔ ان نسل پرست اور شدت پسند گروہوں کے علاوہ طالبان کے لیے تعریفی خیالات کا اظہار سابق صدر ٹرمپ اور ان کے حامیوں کی طرف سے بھی ہوا ہے۔ ٹرمپ نے ان کو ” اسمارٹ” اور” اچھے لڑاکے” کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یہاں تک کے ایوان نمائندگان کے ایک ممبر میٹ گایٹز نے ان کو جو بائیڈن کی انتظامیہ سے زیادہ جائز حکمران قرار دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ جونئیر نے بھی ان کی تعریف میں ٹویٹ کیا ہے۔ لیکن اگر تاریخی تجربے کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہے۔ تاریخی طور پر انتہائی دائیں بازوں کی قوتوں اور انتہائی دائیں بازوں کی اسلامی بنیاد پرستی میں بہت کچھ مشترک رہا ہے۔ مغرب میں انتہائی دائیں بازوں کے کچھ شدت پسند گروہ اسلامی بنیاد پرستوں کے کچھ خیالات کو درست تصور کرتے رہے ہیں۔ ان خیالات میں تہذیبوں کا تصادم، لبرل مغرب کو مسترد کرنا، ملٹی کلچرل ازم یعنی کثیر لاثقافتی خیالات کی مخالفت، حقوق نسواں، ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے سوال پر ان کے خیالات میں ہم آہنگی اور مماثلت رہی ہے۔
اس طرح نسل پرستانہ سفید فام ریاست کے قیام اور خالص اسلامی خلافت کے قیام کے حوالے سے یہ لوگ ملتے جلتے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان نسل پرست گروہوں کی طرف سے ایک ایسے وقت میں طالبان کی تعریف و توصیف ہو رہی ہے، جب خود مغرب کے اندر ان گروہوں کی نسل پرستی اور مسلمانوں کی ان ممالک میں ہجرت کے خلاف ان کی مہم تیز تر ہو رہی ہے۔ دوسری طرف تاریخی طور پر اسلامی شدت پسند گروہوں نے دائیں بازوں کے ان سفید فام گروہوں اور افراد کے لیے کبھی نرم گوشے کا اظہار نہیں کیا ہے، بلکہ ان کو وہ مغربی سماج کا حصہ قرار دیتے ہوئے دشمن ہی قرار دیتے رہے ہیں۔
لیکن حال ہی میں اس صورت حال میں کچھ تبدیلی محسوس ہوئی ہے۔ سفید فام نسل پرست گروہوں اور کچھ اسلامی شدت پسند گروہوں کے درمیان انٹر نیٹ پر باہمی تعلق بڑھتا نظر آیا ہے۔ ان میں ایک قدر مشترک یہودیوں سے نفرت ہے، جس کا اظہار آن لائن میڈیا میں جا بجا دیکھا جا سکتا ہے۔ مستقبل میں سوشل میڈیا کے اور زیادہ مقبول عام ہونے، اور انٹرنیٹ تک رسائی میں مذید آسانیاں پیدا ہونے کے بعد اس طرح کے اشتراک میں اضافے کے امکانات موجود ہیں۔