سید خرم رضا
جس وقت یہ مضمون لکھ رہا ہوں اس وقت خلیجی ملک قطر میں ایک تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ قطر میں آج انتخابات ہو رہے ہیں اور اس میں خاص بات یہ ہے کہ خواتین بھی امیدوار ہیں۔ خواتین امیدواروں کی تعداد چاہے کم ہو یا ان انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے شوریٰ کے ارکان کے حقوق کم ہوں اور امیر کو کسی بھی فیصلے پر ویٹو کا حق حاصل ہو لیکن پھر بھی اس اقدام کو تاریخی ہی کہا جائے گا، کیونکہ جمہوری نظام کی جانب اٹھائے جانے والا یہ بڑا قدم ہے۔
قطر میں آئندہ سال فٹبال کا سب سے بڑا میلہ یعنی فٹبال کا عالمی مقابلہ ہونے والا ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ اس کی وجہ سے قطر نے یہ اصلاحی قدم اٹھایا ہے۔ ویسے یہ کوئی وجہ نظر نہیں آتی لیکن اگر قطر نے اس مجبوری میں بھی یہ اصلاحی قدم اٹھایا ہے تو بھی اس کو اچھا اور تاریخی ہی کہا جائے گا۔ قطر نے پہلے سب سے زیادہ مقبول کھیل کے سب سے بڑے مقابلہ کا انعقاد کرنے کی ہمت کی اور خود کو پوری دنیا کو دکھانے کا موقع دیا۔ اس نے اگر یہ سوچا کہ بہترین اسٹیڈیم اور مہمانوں کے لئے خوبصورت شہر بنانے کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام کو بھی بہتر کر لیا جائے تو یہ بہت اچھا قدم ہے۔
قطر میں جس تاریخی تبدیلی کا ذکر ہو رہا ہے وہ اس خطہ میں پہلی نہیں ہے بلکہ خلیج کے عرب ممالک میں یہ رجحان شروع ہو چکا ہے۔ سعودی عرب میں ایم بی ایس یعنی محمد بن سلمان کے بعد سے اصلاحات کا عمل جاری ہے۔ سعودی عرب میں جہاں خواتین کو بڑی تعداد میں حقوق دیئے جا رہے ہیں وہیں وہاں کے سماج میں زبردست تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ یہ بھی غلط ہے کہ وہاں پر پہلے بہت زیادتی ہو رہی تھی کیونکہ ہر دور میں الگ الگ ممالک میں الگ الگ طرح کی تہذیبوں کا دبدبا رہا ہے۔ آج جن ممالک کو ہم کھلے پن اور ترقی کا علم بردار کہتے ہیں وہاں کا سماج بھی کبھی بہت پچھڑا اور کھلے پن کا مخالف تھا۔ عرب ممالک نے پوری دنیا کو دیکھ کر اگر اپنے نظریہ اور سوچ میں تبدیلی کی ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔
ویسے تو اس سے پہلے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں محترمہ بے نظری بھٹو وزیر اعظم رہ چکی ہیں، لیکن اب عرب ملک تیونسیا میں بھی ایک خاتون وزیر اعظم نامزد ہوئی ہیں یعنی پورے خلیج میں تبدیلی کی ایک لہر ہے۔ دنیا میں ترقی کرنے کے لئے اور ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کے لئے یہ تبدیلیاں ضروری ہیں کیونکہ اگر حکومتوں کی صلاحیتوں کا بڑا حصہ لوگوں کو حقوق سے محروم رکھنے میں خرچ ہو جائے گا تو پھر ملک ترقی کہاں کر سکتا ہے۔ بس اپنے پاس موجود پیسے سے بڑی بڑی بلڈنگیں بنوا کر اور مہنگی مہنگی کاریں خرید کر اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے لئے ترقی یافتہ ممالک میں بھیج کر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ترقی تبھی کہلائے گی جب دوسرے ممالک کے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم اور بہترین نوکریوں کے لئے آپ کے اوپر اعتماد کریں اور وہ جبھی کریں گے جب یہ ممالک ان کے بچوں کے بہترین اور محفوظ مستقبل کی ضمانت دیں گے۔
قطر نے جو فٹبال کے ذریعہ ایک روشن دان کھولا ہے اور بہتر نظام فراہم کرنے کے لئے جو تبدیلیوں کا عمل شروع کیا ہے وہ ایک قابل ستائش قدم ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تیل مستقبل قریب میں بڑی دولت نہیں رہے گا۔ ’چِپ‘ کے اس دور میں تیل پر انحصار کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور تیل کی قیمتیں مزید کم ہوں گی ایسے میں عرب ممالک جو تیل پر انحصار کرتے تھے ان کو اپنے یہاں سیاحت کو فروغ دینا پڑے گا اور سیاحت کے لئے اپنے ممالک میں اصلاحات کرنی پڑیں گی۔
یہ ضروری ہے کہ اصلاحات کے نام پر عریانیت پر قابو رکھنا چاہئے، ترقی کے نام پر انسانی تہذیب کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے، سب کو جائز حقوق دینے کے نام پرغلط راستوں پر چلنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے اور ماضی کی غلطیوں و خامیوں کو درست کرنے کے نام پر جدید دور کی خرابیوں کو گلے نہیں لگانا چاہئے۔
روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی