خالد محمود
جشن عید میلا د النبی پر اس مرتبہ پی ٹی آئی کی حکومت نے باقاعدہ،سرکاری طور پر، نوٹیفیکیشن کے ذریعے یکم سے 12 ربیع الاول تک تقریبات برپا کرنے کا انتظام کیا ہے۔ہم پورے زور شور اور طاقت سے اخلاق نبوی،مساواتِ محمدی،طبِ نبوی، اور دیگر صفات کا مسلسل اعلان کئے جارہے ہیں۔ حُبِ نبوی کا تقاضا ہے کہ ملک بھر میں معاشی اور سماجی عدل بھی،ہر کسی کو ہوتا نظر آئے۔ ساری دنیا، بھارت سمیت ہمارے معاشی عدل و انصاف کی مثالیں دیتی نظر آئے۔ ہمارے اعلانات اور عملی اقدامات کے درمیان فاصلہ نوری سالوں پر محیط ہے۔ اب تو وعدے وعید اور بشارتیں سننے والے پُرکھوں کی ہڈیاں بھی قبروں بوسیدہ ہوچکی ہیں۔
حکومت وقت کے پاس کساد بازری،اشیائے خورد و نوش؛آٹا، چینی،گھی، بجلی،گیس،پٹرول اور ڈیزل کی ہوشربا قیمتیں بڑھانے کے کبھی بنام وطن اور کبھی بہ حیلہ مذہب سینکڑوں بہانے ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے کی نیت اور شکتی نہ ہے۔
ایک نسخہ کیمیا ہے جس کے لئے کسی استخارے،تعویذ گنڈے اور ٹونے کی ضرورت نہ ہے۔ عمران خان کے پاس ابھی وقت ہے کہ فوراً اپنی،اپنے وزیروں،ممبران سینٹ اور اسمبلی کی تنخواہیں کم از کم اجرت کی سطح یعنی 18000 روپے پر لاکر پوری دنیا کے مارکسسٹوں،اور سرمایہ دارانہ ملٹی نیشنل کے منہ پر طمانچہ دے ماریں۔ آپ عوام کا راتب تو سستا کر نہیں سکتے تو اپنی آمدن ہی کم کر کے دیکھ لیں۔
آپ ہنسیں گے کہ تیرا تو دماغ چل گیا ہے۔ مگر یارو اس نے ریاست مدینہ کے خواب ہی اس قدر دکھائے ہیں کہ کہنا پڑتا ہے۔ کیا ایک عام شہری اپنے نبی کے جشن ولادت پر معاشی مساوات محمدی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا؟ ممکنات میں انکار نہیں تو بسم اللہ کریں۔ اس نیک کام کے حیرت انگیز نتائج، بغیر آر ٹی ایس ،کے آنا شروع ہو جائیں گے۔ آپ کے سیاسی دشمن نواز لیگ اور پیپلز پارٹی والے اگلے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے پائیں گے،اگر انہوں نے الیکشن لڑا بھی تو شکست فاش سے دوچار ہو جائیں گے۔ اور آپ تاحیات اسلامی جمہوریہ کے منتخب خلیفہ بن سکتے ہیں۔
پڑ وس میں مودی بھی اگلا الیکشن ہار جائے گا، اور وہاں رام راج کا خواب بھی ہمیشہ کے لئے بکھر کے رہ جائے گا۔ اور امریکہ بہادر سمیت کئی مغربی ممالک جو ہماری منافقت پر تنقید کرتے نہیں تھکتے،اُن کی بھی بولتی بند ہو جائے گی۔ ہئیت مقتدرہ کا سارا غرور آپ کے قدموں پہ نچھاور ہو جائے گا۔ اور چین کو بھی شاید ”دندل“ پڑ جائے۔ عالمی سطح پر نئی معاشی اور انتظامی صف بندیوں کا دروازہ کھل جائے گا۔ عوام صرف خواب دیکھ سکتے ہیں یا نعتیں سنا سکتے ہیں۔ مگر یہ انقلاب صرف اور صرف وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان ہی لا سکتا ہے۔
مولانا روم،حافظؔ اور شیخ سعدی کے زمانے میں بھی آج کی طرح ہر مہینے بل ادا کرنے کی بیماریاں نہ تھیں۔ خیام ؔ کے زمانے میں شراب پر پابندی اور ایکسائز ڈیوٹی نہ تھی۔تبھی تو اتنی عمدہ رباعیات چھوڑ گئے ہیں۔ مرزا غالبؔ مرحوم کے زمانے تک بھی نہ تو بجلی اور گیس کے بل آتے تھے،نہ آٹے، گھی،اور دالوں کے نرخ اس طرح بڑھتے ہوں گے۔ وہ درختوں کی چھاؤں میں پیدل چلتے تھے اور لمبے سفر کے لئے پالکی استعمال کرتے تھے، جس کے کہاروں کا پسینہ ضروربہتا تھا مگر کاربن ایمشن زیرو ہوتی تھی۔
آج کی پالکی “سیڈان کار” ہے جس کی قیمت آپ چالیس لاکھ سے اوپر لے گئے ہیں۔ اگر مرزا غالب کی طرح پالکی پر بھی جانا پڑے تو کوئی بھی کہار ہزار روپے فی کس پربھی بار برداری کے لئے تیار نہ ہوگا۔ اسی لئے تو مرزا غالبؔ بڑی آسانی سے، پانی کی طرح یہ کہہ دیتے تھے کہ:۔
یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ
کچھ نہیں اور تو عداوت ہی سہی
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں آپ کے قیمتیں بڑھے عمرانی عہد اور لوکل شاعر انصر علی انصر کے دور میں جینا پڑا ہے۔ انصر کی ستّر سی سی موٹر سائیکل میں پٹرول کے ایک لٹر کی قیمت اس کے اوپر والے سسٹولک بلڈ پریشر سے جا لگی ہے۔
ہمارے مقامی شاعر انصر علی انصرنے کیا خوب کہا ہے:۔
جنّتوں کی بشارتیں پا کر
دوزخوں کے عذاب دیکھتا ہوں
♠