حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان مذاکرات کی خبروں نے اس بحث کو ہوا دے دی ہے کہ آخر حکومت اس طرح کی تنظیموں سے کیوں بلیک میل ہوتی ہے اور یہ تنظیمیں کب تک بلیک میل کرتی رہیں گی۔
ناقدین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کو کوئی رعایت دی، تو مستقبل میں یہ حکومت کو مزید بلیک میل کرے گی اور ایسی مذہبی تنظیموں کی حکومت کے اس عمل سے حوصلہ افزائی ہوگی جو مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
واضح رہے کہ حکومت اور کالعدم تنظیم کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور پاکستانی میڈیا کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت ٹی ایل پی کی بیشترشرائط کو مشروط طور پر ماننے کے لیے راضی ہے تاہم فرانس کے سفیر کی بے دخلی کے حوالے سے حکومت کو سخت تحفظات ہیں۔
پاکستان میں کئی ناقدین کا خیال ہے کہ سیاسی حکومتیں دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں سے ڈرتی ہیں اور وہ ان کو چیلنج کرنا نہیں چاہتی کیونکہ اس سے ان کا ووٹ بینک متاثر ہو سکتا ہے۔یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ماضی میں نون لیگ کی حکومت سپاہ صحابہ سمیت کئی مذہبی تنظیموں کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھی ۔کچھ کا خیال یہ ہے کہ مسئلہ سیاسی جماعتوں یا سیاسی حکومتوں کے ساتھ نہیں بلکہ مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کے حوالے سے ہے، جو ہمیشہ دائیں بازو کی مذہبی قوتوں کی حمایت کرتی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے وابستہ اسد بٹ کا کہنا ہے کہ جب تک ریاست اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرے گی، اس طرح کی تنظیمیں ریاست کو بلیک میل کرتی رہیں گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”تحریک نظام مصطفی سے لے کر تحریک نفاذ شریعت محمدی تک، سپاہ صحابہ پاکستان سے لے کر تحریک لبیک پاکستان تک تمام مذہبی عناصر کے پیچھے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ رہا ہے اور بنیادی طور پر اس کے پیچھے وہ جہادی فلسفہ رہا ہے جس کے تحت ملک میں مذہبی رجعت پسند قوتوں کو دوام بخش کر یہاں پر سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کی پالیسی اپنائی گئی‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب ریاست کو گھٹنے ٹیکنے نہیں چاہیے بلکہ قانون کو حرکت میں آنا چاہیے، “ریاست کو یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اگر کوئی قانون ہاتھ میں لے گا تو اس کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ ریاست ہمیشہ دائیں بازو کی رجعت پسند اور مذہبی قوتوں کیلئے نرم پالیسی لے کر آتی ہے‘‘۔
ناقدین کا خیال ہے کیونکہ مذہبی تنظیموں نے پاکستان کی تخلیق کی مخالفت کی تھی اس لیے پاکستان بننے کے بعد ان کی سیاسی جگہ کچھ زیادہ نہیں تھی لیکن پچاس کی دہائی میں احمدی مخالف تحریک میں مذہبی عناصر بہت متحرک ہوئے، جو بالآخر کچھ ناقدین کے مطابق ملک میں پہلے مارشل لاء کا موجب بنا۔
سنہ 70 کی دہائی میں مذہبی قوتوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کے نام سے تحریک چلائی۔ اسی کی دہائی میں جنرل ضیاء کی آمریت نے مذہبی قوتوں کی خوب سرپرستی کی اور ملک کے کئی حصوں میں مذہبی عناصر نے افراتفری پھیلانے کی کوشش کی۔
نوے کی دہائی میں مولانا صوفی محمد نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کا نام لیکر مالاکنڈ میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی اور ریاستی رٹ کو چیلنج کیا۔ صوفی محمد کے کچھ پیروکاروں نے بعد میں تحریک طالبان پاکستان میں بہت سرگرم کردار ادا کیا۔
جنرل مشرف کے دور میں لال مسجد سے وابستہ مذہبی رہنماؤں نے ریاست کے لیے مشکلات پیدا کیں اور گزشتہ کچھ برسوں سے تحریک لبیک پاکستان حکومت اور ریاست کو وقتاً فوقتاً چیلنج دیتی رہی ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ تحریک لبیک پر پابندی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا اس پر پہلے ہی پابندی عائد ہے۔ ماضی میں بھی متعدد تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی لیکن وہ دوسرے ناموں اور شناختوں کے ساتھ دوبارہ منظر عام پر آگئیں۔ ٹی ایل پی بھی پابندی کی صورت میں کسی ایک نام سے اپنی سرگرمیاں شروع کردے گی۔
دراصل ٹی ایل پی اور دیگر فرقہ ورانہ تنظیمیں جس نظریاتی اساس پر استوار ہیں اس نظریاتی اساس سے ریاست کو دوری اختیار کرنا چاہیے۔ فرقہ ورانہ تنظیموں اور ہماری ریاست کا نظریاتی بیانیہ مشترک ہے۔ اس مشترکہ نظریاتی بیانیہ کی موجودگی میں ٹی ایل پی اور دیگر فرقہ ورانہ تنظیموں کے خلاف انتظامی ایکشن کرتے ہوئے انھیں وقتی طور پر تو دبایا جاسکتا ہے لیکن مستقل طور پر نہیں۔
web desk