بیرسٹر حمید باشانی
میں نے گزشتہ کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ پچاس کی دھائی میں دنیا کی تقسیم اورصف بندی امریکہ اور سوویت یونین کے گرد گھومتی تھی۔ اس صف بندی میں تیسری دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک اپنی اپنی خواہشات اور ضروریات کے تحت شامل ہوتے تھے۔ اس دور میں پاکستان ایشیا کا واحد ملک تھا، جو بیک وقت بغداد پیکٹ اور سینیٹو جیسے دوعالمی معائدوں میں شامل ہو گیا تھا۔ ان معاہدوں میں شمولیت نے پاکستان کی تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ اس عمل نے پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی اور اس کے عوام کے مستقبل پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا۔ آج بھی پاکستان پر جو بیت رہی ہے، یہ ان مغربی فوجی اتحادوں میں شمولیت کا شاخسانہ ہے۔ اور یہ ملک اب تک ان معاہدوں کے گہرے سائے اور اثرات سے نہ نکل سکا۔
دیگر اثرات کے علاوہ اس کا سب سے بڑا اثر یہ پڑا کہ مسئلہ کشمیر پر عالمی حمایت میں تبدیلی آئی۔ اس تبدیلی کی وجہ سویت یونین بنا، جو سرد جنگ کے اس عروج کے دور میں ناصرف عالمی سیاست میں امریکہ کا ہم پلہ تھا، بلکہ سیکورٹی کونسل میں ویٹو کا حق رکھتا تھا، جہاں ان دنوں مسئلہ کشمیر کثرت سے اٹھایا جاتا تھا، اور اس پر ووٹنگ ہوتی تھی۔ پاکستان کی طرف سے ان دو معاہدوں میں شرکت کے اثرات کا پوری طرح اندازہ لگانے کے لیے اس وقت کی سیاست کا تھوڑا سا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ اس وقت کے مخصوص عالمی حالات میں ایک اہم ترین عنصر برصغیر کے بارے میں سوویت یونین کا طرز عمل اور طرز فکرتھا۔
اس سارے قصے میں سب سے اہم ترین عالمی کردار جوزف سٹالن کا تھا۔ سوویت انقلاب کے فورا بعد پاکستان اور انڈیا کے بارے میں سٹالن کی پالیسی ایک طرح کی لا تعلقی پر مبنی تھی ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ چودہ اور پندرہ اگست کوہندوستان کی آزادی اور پاکستان کی تشکیل دنیا بھر کے میڈیا کے لیے ایک بڑی خبر تھی۔ لیکن اس دن سوویت یونین کے کسی بھی اخبار نے ہندوستان کی آزادی کے بارے میں کوئی خبر تک نہیں چھاپی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ آزادی سے پہلے اس معاملے میں سوویت پالیسی واضح تھی کہ دنیا دو کیمپوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک طرف سامراجی اور جمہوریت دشمن قوتین ہیں، اور دوسری طرف سامراج دشمن اور جمہوریت پسند قوتیں ہیں ۔ ان دو قوتوں کا دنیا بھر میں تصادم ہے۔ سٹالن نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ نے نا م نہاد اعلان آزادی کے باوجود بھارت کواپنی غلامی اورتابعداری میں رکھا ہوا ہے، اس لیے بھارت ابھی تک ان سامراجی قوتوں کے غلبے سے آزاد نہیں ہوا ہے، جس کا جشن بنایا جائے۔
آگے چل کر جب بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے عالمی سطح پر غیر جانبدار تحریک میں متحرک کردار ادا کرنے کی کوشش کی تو سٹالن نے واضح طور پربھارت کے اس کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ اس کے نزدیک بھارت اینگلو امریکن سرمائے کے زیر اثر تھا، اور ہندوستان کی مقامی سرمایہ داری “نیشنل بورزوازی” ملک پر حکومت کر رہی تھی۔ بھارتی جمہوریت کے بارے میں سوویت رویہ یہ تھا کہ مہاتما گاندھی کو سرکاری طور پر ایک رجعت پسند ہندو لیڈر قرار دیا جاتا تھا ۔ سوویت پریس میں عام انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس کی کامیابی کو دھونس دھاندلی، جھوٹے وعدے اور دھوکا دہی کا نتیجہ قرار دیا جاتا تھا۔
سوویت پریس میں برصغیر کی یہ تصویر پیش کی گئی کہ یہاں پہ بھوک کی وجہ سےوسیع پیمانے پر اجتماعی اموات ہو رہی ہیں۔ یہاں کروڑوں لوگ بھوک ننگ اور سامراجی بالا دستی کا شکار ہیں۔ چنانچہ سٹالن کی اس سوچ کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کو عالمی سامراجی ایجنڈا قرار دے کر اس سے لاتعلقی اختیارکی گئی، اور اس کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ۔ کشمیر میں جب سنتالیس اڑتالیس کی پہلی جنگ شروع ہوئی تو اس وقت سوویت یونین میں جو سوچ تھی اس کی ایک جھلک سوویت ویت پریس میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس کا ایک نمونہ مشہور زمانہ نیوز ایجنسی تاس کے نمائندے کی روپوٹنگ میں نظر آتا ہے۔
انہوں نے جنگ زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور واضح طور پر لکھا کہ کشمیر میں دوہزار کے قریب قبائلی افراد داخل ہوئے ہیں، جن کے پاس جدید ہتھیار اورآلات ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نمائدے نے لکھا کہ ان قبائلیوں کو منظم کرنے کا کام ایک برطانوی جنرل نے کیا ہے، جو پاکستان میں رہ کر یہ خفیہ خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ اس طرح سوویت سرکاری دانشوروں اور اخبارات نےاس جنگ کا تعلق امریکہ اور برطانیہ کے سامراجی عزائم سے جوڑا۔ لیکن انہوں نے سیکورٹی کونسل سمیت سفارتی سطع پر کسی قسم کا سرگرام کردار ادا کرنے کے بجائے لاتعلقی کی پالیسی جاری رکھی۔
کشمیر کے بارے میں سوویت یونین کی پالیسی میں تبدیلی کا آغازپاکستان کی طرف سےمغربی فوجی اتحادوں میں شمولیت سے ہوا۔ اس سے پہلے کافی عرصہ تک کشمیر میں لڑائی چلتی رہی، اقوام متحدہ میں اس مسئلے پر بحث و مباحثہ ہوتا رہا، لیکن سوویت مندوبین نے اس پر اپنی روایتی خاموشی جاری رکھی سوائے ایک آدھ استشنا کے۔ ایک استشنا یہ ہوا کہ جب سیکورٹی کونسل کے ایجنڈے پر اس تنازعے کا نام “جموں کشمیر کا مسئلہ” کے بجائے “پاک بھارت تنازعے” کا نام دینے کی درخواست دی گئی تو سوویت یونین کے مندوب نے اس کی مخالفت میں سخت تقریر کی۔ اور دوسرا موقع اس وقت آیا جب ثالثی کے لیے امریکی نمائندے کی نامزدگی کی گئی۔
اس کے علاوہ اس مسئلے پر استصواب رائے اور اقوام متحدہ کے کردار کے حوالے سے بھی گاہے اظہار خیال ضرور کیا، مگر جب کبھی اس مسئلے سے متعلق کسی قرار داد پر ووٹنگ کا وقت آیا تو سویت یونین نے اجلاس سے غیر حاضری کو ترجیح دی ۔ اس سفارتی لا تعلقی کے باوجود سوویت پریس شروع دن سے اس مسئلے پر بہت سرگرم کردار ادا کرتا رہا۔ سوویت پریس میں بار یہ بات رپورٹ کی جاتی تھی کہ آزاد کشمیر میں سویت یونین اور چین کے خلاف غیرملکی اڈے بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ سوویت پریس میں ایسے بے شمار آرٹیکل چھپے، جن میں یہ تجزیہ کیا گیا کہ جنگ باز مغربی فوجی اتحادیوں کا مفاد کشمیر کے مسئلے کے ساتھ وابستہ ہے، اور وہ اس مسئلے کی آڑ میں سوویت یونین اور چین کے خلاف گھیرا تنگ کرنا چاہتے ہیں ۔
سوویت پریس تاس کے نمائدے نے دہلی سے 1948 کے ایک ڈسپیچ میں ایک خفیہ عالمی معاہدے کا ذکر کیا، جس کے تحت پاکستانی زیرانتظام کشمی کو گردوپیش کےعلاقوں پرنظر رکھنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ سن1951 میں سوویت اخبار پراودا نے بار بارلکھا کہ امریکیوں کا یہ منصوبہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ایک فوجی ہوائی اڈا بنایا جائے۔ اس طرح اس دور کےسویت اخبارات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مسئلہ کشمیر اور مغربی طاقتوں کے مفادات کے حوالے سوویت یونین کی فکرمندی میں بنتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔
دسمبر 1952 میں جب گراہم رپورٹ پر بات کرنے کے لیے سکیورٹی کونسل کا اجلاس ہوا تو سویت یونین کی پالیسی میں واضح تبدیلی کے آثار دکھائی دیے۔ سویت نمائندے نے انتہائی سخت زبان استعمال کرتے ہوئے برطانیہ اور امریکہ کی پاک بھارت معاملات میں مداخلت اور مسئلہ کشمیر کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ اس طرح سوویت یونین نے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں اپنی خاموشی کی پالیسی ترک کر لی ۔ یہ پالیسی آگے چل کر مسئلہ کشمیر پر سخت گیر پالیسی کی شکل اختیار کر گئی۔ اور سویت یونین نے مسئلہ کشمیر سے متعلق مختلف قراردادوں پربار بار ویٹو کا استعمال شروع کر دیا، جس کا تفصیلی جائزہ کسی آئنیدہ کالم میں لیا جائے گا۔
♠