بیساکھیوں پر کھڑی عمرانی حکومت لڑھکنا شروع ہو چکی ۔ملکی تاریخ کی بلند ترین شرح مہنگائی، بے روزگاری، بداعنوانی، لاقانونیت اور بین الالقوامی تنہائی کے باوجود اگر عمرانی حکومت قائم و دائم تھی تو اس کی واحد وجہ اس کے بیساکھیاں تھیں۔ مگر اب بیساکھیاں ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 2018 کے عام انتخابات میں عمران خان کی جماعت کو ایک بندوبست کے تحت اقتدار سونپا گیا تھا۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے میثاق جمہوریت کے بعد آئندہ ایسٹیبلشمنٹ کے کل پرزے نہ بننے پر ایسٹبلشمنٹ سر پٹا گئی تھی۔ دونوں قوتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے ایک تیسری قوت کی ضرورت تھی۔ ممکنہ قوت جماعت اسلامی یا پی ٹی آئی ہو سکتی تھی۔ مذہبی جماعت کے برعکس ایک ایسی جماعت کا قرعہ عین فطری تھا جو ملکی اور بین الااقوامی طور پر قابل قبول ہو۔ یوں منظور نظر عمران خان ٹھہرے۔
عرصے سے اقتدار کی خواہش لیے عمران خان ناکام سیاست کر رہے تھے۔ انھیں اس بات پر قائل کیا گیا کہ جب تک اس کے ہاتھ میں مضبوط سہارے نہیں دیے جاتے وہ اقتدار کی راہ داریوں تک نہیں پہنچ پائیں گئے۔ یوں ان کے اقتدار کے لیے رائے عامہ ہموار ہونا شروع ہوئیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں اسٹبلشمنٹ کی کھنڈی (چھڑی)تھی تو دوسرے ہاتھ میں عدلیہ کی۔
عمران خان نے تین سال انھیں سہاروں کے ساتھ پورے کیے۔مخالف سیاست دانوں کو نیب اور عدالتوں کے ذریعے راستے سے ہٹایا۔ اپنی انتظامی گرفت کو اسٹبلشمنٹ سے مضبوط رکھتے رہے۔ حتی کہ کابینہ کی میٹنگ کے کورم کو پورے کرنے کے لیے بھی کچھ حلقوں کو برائے راست فون کرنے پڑتے۔
جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد عمرانی حکومت کا ایک سہارا عملاً ختم ہوا۔ نظریہ ضرورت کے تحت اگر عدالت عظمی کسی بڑے بندوبست کے تحت کوئی حمایت دینا بھی چاہے تو عدالت کے آئینی حدود کے دائرہ کار کے اندر کام کرنے والے ججوں کی مضبوط اپوزیشن موجود ہے۔
عمران خان کا دوسرا سہارا اسٹبلشمنٹ بھی آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ عمران خان کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے اس سہارے کی اشد ضرورت تھی جس سے وہ اپوزیشن اور دیگر اداروں کو اپنے زیرنگیں رکھ پا رہے ہیں۔ یہ بات عمران خان کو معلوم ہے۔ اسی لیے ڈی جی آئی ایس آئی کو اپنے عہدے پر براجمان رکھنا مقصود تھا اور نئی تقرری کے معمے کا پس منظر یہی ہے۔ نئے ڈی جی کی تقرری سے پہلے عمران خان وہی ضمانت چاہیں گے جو انھیں پہلے دی گئی تھی۔
اب نئے ڈی جی جو اپنی تقرری سے پہلے ہی ایک تنازعے کا شکار ہو چکے ہیں اور تعلقات میں جو بال آ چکا ہے اسے دور ہوتے وقت لگے گا۔ عمران خان کی طرف سے اپنے اختیارات کےاستعمال کے نام پر جس طرح آرمی چیف کو بے توقیر کیا گیا اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فوج کے خلاف پنجاب سے جو ری ایکشن آیا اس نے پہلے ہی فوج کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ نیز فوج کے اندر بھی بحیثیت ادارہ ایک ارتقائی عمل جاری ہے۔ فوج اب چند جنرلوں کے من پسند کاموں کے عوض بحیثیت ادارہ بدنام ہونے کو تیار نہیں۔ اس کا اظہار پچھلی تین چار کور کمیٹی میٹنگ میں کھل کر ہو چکا ہے۔
تیر اب مگر عمران خان کے ہاتھوں نکل چکا ہے۔بے قابو مہنگائی، بے روزگاری، بداعنوانی، لاقانونیت اور بین الالقوامی تنہائی کے ساتھ ساتھ ایسٹبلشمنٹ کی اس سوچ میں کہ سربرائے حکومت کی ایمان دارانہ شخصیت کے سحر میں ملکی مسائل خوبخود درست ہو سکتے ہیں تبدیلی آگئی ہے۔ اب ایسٹبلشمنٹ کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ ایک فرد کی تبدیلی سے نظام کو فرق نہیں پڑنا۔ اتفاق سے اب کی بار وہ ایک شخص عمران خان ہے۔
اسلام آباد میں مقیم دوست اس بات سے آگاہ ہیں کہ حکومتی اراکین کے چہرے مر جھائے ہوئے ہیں۔ بیساکھیوں کے لڑھکنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ تحریک لبیک کے احتجاج کا دھکا دے کر مضبوط سہارا ہاتھ سے کھسکایا جا رہا ہے۔ عمران خان کے دورہ سعودی عربیہ میں معاملات طے پا گئے تو ٹھیک وگرنہ اتحادیوں اور ناراض اراکین کی آخری لات مار دی جائے گئی۔